سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کا زیادہ لائق ہو کہ کرنے والے کو دنیا میں بھی جلد سزا ملے اور آخرت میں بھی عذاب ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 29]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب النهي عن البغي: 4902 و الترمذي: 2511 و ابن ماجه: 4211، الصحيحة: 918، 978»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 29
فوائد ومسائل: (۱)جو شخص جتنا قریبی ہے اس کے ساتھ قطع رحمی بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ والدین کی نافرمانی ان کے ساتھ قطع رحمی ہے۔ جب عام لوگوں کے ساتھ قطع رحمی کی سزا یہ ہے تو والدین کے ساتھ قطع رحمی کی سزا کتنی زیادہ ہوگی؟ (۲) دوسرا گناہ جس کی فوراً سزا مل جاتی ہے وہ کسی پر ظلم کرنا ہے۔ حدیث میں لفظ (البغی)استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی چیز کے اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ ظالم بھی اپنی حدود سے تجاوز کرکے کسی کا حق، عزت وغیرہ غصب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (۳) گناہ کی معافی کی کئی صورتیں ممکن ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا ہی میں سزا مل جائے اور آخرت میں انسان کے لیے معافی ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے ساتھ ایسا ہی کرم کا معاملہ فرماتا ہے کہ انہیں دنیا میں آنے والی آزمائشیں ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں حتی کہ اگر کانٹا چبھتا ہے تو وہ بھی کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ لیکن قطع رحمی کے سبب آنے والی تکلیف کسی گناہ کا کفارہ بنتی ہے نہ ہی اس کے ذریعے سے آخرت کی کوئی مصیبت ٹلتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لیس شيئٌ أطیع اللّٰهُ فِیه أعْجَلَ ثوابًا مِنْ صِلَةِ الرَّحِمِ، وَلَیْسَ شَيْئٌ أعَجَلَ عِقابًا مِن الْبَغْیِ وَقَطِیعَةِ الرَّحِمِ، وَالْیَمِیْنُ الْفَاجِرَةُ تَدَعُ الدِّیَارَ بَلَاقِعَ))(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: ۹۷۸) ”اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے امور میں صلہ رحمی سے بڑھ کر کوئی امر ایسا نہیں جس کی جزاء جلد ملے اور ظلم و سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی عمل اس لائق نہیں کہ اس کی سزا جلد ملے، نیز جھوٹی قسم شہروں کو ویران کر دیتی ہے۔“ (۴)”رحم“ میں محرم اور غیر محرم تمام رشتہ دار آتے ہیں اور تمام کے ساتھ صلہ رحمی بالاتفاق واجب ہے، گو درجات کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ صلہ رحمی کی کم از کم صورت دعا سلام اور کلام ہے۔ (۵) والدین کی نافرمانی کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں۔ (۶) سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان ہے، انہوں نے ابن مہران کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: بادشاہوں کے دروازے پر مت جاؤ خواہ مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ہو۔ کسی غیر محرم عورت سے تنہائی اختیار نہ کرو خواہ مقصود قرآن پڑھانا ہی ہو۔ والدین کے نافرمان کو دوست مت بناؤ کیونکہ جو اپنے والدین کا نافرمان ہے وہ آپ کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ (نظرة النعیم بحوالہ المستطرف: ۱۰؍۵۰۱۶)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 29