سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے۔“ حاضرین نے عرض کیا: کوئی (اپنے ماں باپ کو) کس طرح گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کی صورت یہ ہے کہ) وہ کسی آدمی کو گالی دیتا ہے اور وہ (جواباً) اس کے باپ اور ماں کو گالی دیتا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 27]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب لا يسب الرجل والديه: 5973 و مسلم، الإيمان: 90 و أبوداؤد: 5141 و الترمذي: 1902»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 27
فوائد ومسائل: (۱)لڑائی جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا نفاق کی علامت ہے اور فسق ہے۔ والدین کو گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہ ہے اور کبیرہ گناہوں میں بھی اس کی شناعت بہت زیادہ ہے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بتایا کہ والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے تو حاضرین نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا بھلا والدین کو بھی کوئی شخص گالی دے سکتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان اپنی صحیح فطرت پر ہو تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو گالی دے بلکہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپ نے جواب دیا کہ اکثر و بیشتر انسان خود تو والدین کو گالی نہیں دیتا لیکن والدین کو گالیاں دلوانے کا سبب بنتا ہے اور کسی کام کا سبب بننا اس کے کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو والدین کی بدنامی کا باعث بنے۔ (۳) عصر حاضر میں دین سے عدم دلچسپی اور مغرب کی تقلید نے مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ لوگ اپنے والدین کو خود گالیاں بکتے ہیں، انہیں گھروں سے نکال دیتے ہیں اور ان کے ادب و احترام کو ذرہ ملحوظ نہیں رکھتے۔ بعض نااہل تو والدین کو ماں باپ کہہ کر پکارنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ فطرت اور اسلام سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ وہ والدین کے مقام و مرتبے کو جان سکیں۔ (۴) والدین کو گالی دینے والے کو دوسری جگہ ملعون قرار دیا گیا ہے (صحیح ترغیب وترهیب، حدیث: ۲۵۱۶)والدین کی نافرمانی کرنے والے اور گالیاں بکنے والے کو بعض اوقات دنیا میں بھی نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے، معروف تابعی عوام بن حوشب فرماتے ہیں: میں ایک دفعہ کسی قبیلے کے ہاں مہمان ٹھہرا، اس قبیلے کے ساتھ ہی ایک قبرستان تھا۔ عصر کے بعد اس میں سے ایک قبر پھٹی اور ایک آدمی نمودار ہوا۔ اس کا سر گدھے کے سر کی طرح تھا اور باقی وجود انسان کا تھا۔ وہ تین دفعہ گدھے کی طرح رینکا اور پھر قبر بند ہوگئی۔ وہیں قریب ایک بڑھیا بال یا اون کات رہی تھی۔ ایک عورت نے کہا: اس بڑھیا کو دیکھتے ہو؟ میں نے کہا: اسے کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ اس (قبر سے ظاہر ہونے والے)کی ماں ہے۔ میں نے کہا: اس کا کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا: وہ (قبر سے ظاہر ہونے والا)شراب پیتا تھا۔ جب شام کو گھر آتا تو اس کی ماں اس سے کہتی: بیٹا اللہ سے ڈرو اور شراب پینے سے باز آجاؤ۔ وہ کہتا: تو گدھے کی طرح (ہر وقت)رینکتی رہتی ہے! پھر اس خاتون نے بتایا کہ ایک روز عصر کے بعد وہ مرگیا اور اب ہر روز عصر کے بعد اس کی قبر پھٹتی ہے اور وہ تین دفعہ گدھے کی طرح رینکتا ہے اور پھر قبر اس پر بند ہو جاتی ہے۔ (صحیح الترغیب، حدیث: ۲۵۱۷) (۵) شیخ البانی رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر کے حوالے سے ابن بطال کا قول نقل ہے کہ یہ حدیث سد ذرائع میں بنیادی قاعدے کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی جو فعل حرام کے ارتکاب کا باعث بنے اس کا کرنا بھی حرام ہے خواہ حرام کا قصد نہ بھی ہو جیسا کہ غیر محرم کو دیکھنا بدکاری کا باعث بنتا ہے اس لیے حرام ہے کہ کسی غیر محرم کی طرف دیکھا جائے خواہ بدکاری کی نیت نہ بھی ہو۔ ماوردی رحمہ اللہ نے اس سے استنباط کیا ہے کہ ایسے مرد کو ریشم (یا سونا)فروخت کرنا جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ پہنے گا، درست نہیں ہے۔ اسی طرح ایسے شخص کو سر کہ بیچنا بھی درست نہیں جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ اس سے شراب بنائے گا، اسی طرح دیگر اشیاء اس پر قیاس کی جاسکتی ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 27