تمیم بن حذلم رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے یاد ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے کس کو امیر کے لفظ سے سلام کہا گیا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رحبہ کے دروازے سے نکلے تو ایک شخص کندہ سے آیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ابوقرہ کندی تھا۔ اس نے سلام کہا اور یہ الفاظ بولے: السلام عليك أيها الأمير و رحمة الله، السلام علیکم! سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ انداز نا پسند کیا اور فرمایا: السلام عليكم أيها الأمير، السلام علیکم! (یہ کیا انداز ہوا) کیا میں ان لوگوں میں شامل ہوں کے نہیں (پھر مجھے الگ سلام کی کیا ضرورت؟) سماک رحمہ اللہ کہتے ہیں: بعد ازاں سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اس کو مان لیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1026]
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1026
فوائد ومسائل: سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ مجھے الگ سے واحد کے صیغے کے ساتھ سلام کہنا اور لوگوں کو الگ سلام کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ السلام علیکم میں سب آجاتے ہیں وہی کافي تھا۔ بعدازاں شاید انہیں اس انداز کے جواز پر انشراح ہوگیا تو انہوں نے اس انداز سے سلام کہنے کی اجازت دے دی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1026