سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار چیزیں ہیں وہ سب حجت اور عذر کے ساتھ اللہ پر دلالت کرتی ہیں، ایک وہ آدمی جو دو انبیاء علیہم السلام اجمعین کی نبوت کے درمیانی مدت میں وفات پا گیا، ایک وہ آدمی جو بڑھاپے میں فوت ہوا، دیوانہ شخص اور بہرا و گونگا شخص، تو اللہ انہیں فرمائے گا، میں تمہاری طرف ایک قاصد بھیجنے والا ہوں اس کی اطاعت کرنا، پس وہ ان کے پاس آئے گا تو وہ ان کے لیے آگ بھڑکائے گا، پھر وہ کہے گا: اس میں داخل ہو جاؤ، جو اس میں داخل ہو جائے گا تو وہ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی والی بن جائے گی اور جو اس میں داخل نہیں ہو گا اس پر عذاب کا حکم ثابت ہو جائے گا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب أحوال الاخرة/حدیث: 943]
تخریج الحدیث: «السابق .»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 943 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 943
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ بہرے، مجنون اور انتہائی بوڑھے اور دو پیغمبروں کے درمیانی وقفہ میں زندگی گزارنے والوں کا میدان حشر میں دوبارہ امتحان ہوگا۔ کیونکہ یہ عذر پیش کریں گے تو اللہ ذوالجلال ان کا امتحان لے گا۔ دوسری حدیث میں وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزِ قیامت ان چار افراد کو لایا جائے گا: بچہ، مجنون، دو رسولوں کے درمیانی وقفے میں مرنے والا اور بہت بوڑھا۔ ان میں سے ہر کوئی اپنی اپنی دلیلیں پیش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ آگ کی گردن (یعنی لپیٹ) سے فرمائے گا: نمایاں ہو، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں اپنے بندوں کی طرح ان میں رسول بھیجتا رہا اور اب میں تمہارے لیے اپنا قاصد خود ہوں اور کہتا ہوں کہ (اب سب کے سب) اس آگ میں داخل ہو جاؤ، بدبخت لوگ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم اس میں کیسے داخل ہوں، ہم تو اس سے دور بھاگتے تھے، سعادت مند لوگ (اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے) چل پڑیں گے اور اس میں جلدی جلدی اور زبردستی گھسیں گے۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم (آگ میں داخل نہ ہونے والے بدبخت) لوگ میرے رسولوں کو جھٹلانے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بڑے ہوتے (کیونکہ تم نے میری براہ راست بات ہی نہیں مانی) اب یہ جنت میں داخل ہوں گے اور یہ آگ میں۔ “(مسند ابي یعلی: 3؍ 1044 اسناده صحیح) اس میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جن کو اللہ ذوالجلال نے قوت سماعت عطا کر رکھی ہے، عقل مند ہیں، رسول کا پیغام پہنچ چکا ہے اور اسے سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دنیا میں گزاری گئی زندگی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، دوبارہ امتحان نہیں ہوگا۔