الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6742
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم اور موسیٰ ؑ کا مباحثہ ہو تو موسیٰ ؑ نے کہا، اے آدم ؑ! آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں ناکام کیا اور آپ نے ہمیں جنت سے نکلوادیا تو آدم ؑ نے انہیں جواب دیا،آپ موسیٰ ؑ ہیں اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف بخشا اور اپنے ہاتھ سے تجھے لکھ کر دیا۔کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6742]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق دنیا میں بھیجنے کے لیے ہوئی تھی،
اس میں حضرت آدم علیہ السلام کے فعل یا عمل کو کوئی دخل نہیں ہے،
ایک تکوینی چیز ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے عمل سے توبہ کر لی تھی اور معافی مانگ لی تھی،
اس لیے انہوں نے تقدیر کو اپنے عمل کے لیے حجت نہیں بنایا،
بلکہ جنت سے نکالنے جانے کی مصیبت پر دلیل بنایا اور تقدیر کو اپنے عمل کے لیے حجت بنانا جائز نہیں ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی مصیبت پر دلیل و حجت بنانا درست ہے،
اس لیے کہا جاتا ہے،
تقدیر کو معایب کے لیے حجت و دلیل نہیں بنانا چاہیے،
تاکہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کر سکے اور ان سے باز آنے کی کوشش کرے،
لیکن مصائب پر دلیل و حجت بنانا چاہیے تاکہ صبر و تسلی ہو سکے،
کیونکہ تکلیف و مصیبت سے دوچار ہو جانے کے بعد اس پر جزع و فزع کا کوئی فائدہ نہیں ہے،
بلکہ نقصان ہے کہ صبر و شکیب سے محروم ہو کر انسان اجروثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور اس جزع و فزع کے نتیجہ میں کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے تمہیں توراۃ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی۔
" اللہ اس کائنات کا خالق ہے اور کائنات اور اس کی ہر چیز مخلوق ہے تو جس طرح ہم خالق کی ذات کی حقیقت و ماہیت سے آگاہ نہیں ہیں،
اسی طرح اس کے ہاتھ کی کیفیت و صورت سے بھی آگاہ نہیں،
جس طرح اس کی ذات،
اس کی خالقیت کے لائق اور مناسب ہے،
اسی طرح اس کا ہاتھ بھی اس کی خالقیت کی شان کے مطابق ہے،
ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے اور اس کی کیفیت و صورت پر بحث نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کیسی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6742
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6743
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم ؑ اور موسیٰ ؑ میں مباحثہ ہوا تو آدم ؑ غالب آگئےچنانچہ موسی ؑ نے انہیں کہا، آپ وہ آدم ہیں جس نے لوگوں کو (جنت کی راہ سے) ہٹا دیا اور انہیں جنت سے نکلوادیا؟" تو آدم ؑ نے جواب دیا، آپ وہ شخصیت ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم دیا اور لوگوں پر اپنی پیغامبری کے سبب برگزیدہ کیا موسیٰ ؑ نے کہا ہاں آدم ؑ نے کہا تو مجھے ایسے معاملہ پر ملامت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6743]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غوایت سے یہ مقصد ہے،
اگر آپ جنت کے درخت کا پھل نہ کھاتے،
جنت سے نہ نکلتے اور لوگ دنیوی مفادات اور خواہشات کے اسیر نہ ہوتے اور شیطان ان کو گمراہ نہ کر سکتا اور نہ لوگ اللہ کی نافرمانی کر کے جنت سے محروم ہوتے،
حالانکہ آدم علیہ السلام کا جنت سے نکلنے میں کوئی دخل نہیں ہے اور دنیا میں لوگوں کو امتحان و آزمائش کے لیے ہی بھیجا گیا ہے اور شیطان سے بچاؤ کی تدابیر بھی عقل و شعور اور رسولوں کے ذریعہ بتا دی گئی ہیں اور اس میں آدم علیہ السلام کا کوئی دخل نہیں ہے،
یہ تو ایسے ہی ہے،
جیسے شہد کی مکھی کو پروانے کا قاتل قرار دیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6743
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3409
3409. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ ہی آدم ؑ ہیں کہ آپ کی لغزش نے آپ کو جنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ نے انھیں جواب دیا کہ تم وہی موسیٰ ؑ ہو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا، پھر تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے پیدا ہونےسے پہلے میرا مقدر بن چکی تھی؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ آپ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3409]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیرہے کہ اللہ تعالی نےان کوچن لیا اور پیغمبر ی عطا فرمائی۔
باب اور حدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4738
4738. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت موسٰی ؑ نے سیدنا آدم ؑ سے بحث کی اور ان سے کہا: آپ ہی نے اپنے غلطی کی وجہ سے لوگوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا؟ حضرت آدم ؑ نے فرمایا: اے موسٰی! آپ کو اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا ہے، کیا آپ مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسٰی ؑ پر بحث میں غالب آ گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4738]
حدیث حاشیہ:
حضرت آدم علیہ السلام تمام آدمیوں کے پدر بزرگوار ہیں۔
ان سے سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو اللہ پاک کے خاص برگزیدہ نبی تھے اور کون ایسی گفتگو کر سکتا تھا۔
حضرت آدم گو مرتبہ میں حضرت موسیٰ سے کم تھے مگر آخر بزرگ تھے انہوں نے ایسا جواب دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خاموش ہو گئے۔
اس سے ثابت ہوا کہ تقدیر بر حق ہے جوقسمت میں لکھ دیا گیا وہ ہو کر رہتا ہے۔
تقدیر الٰہی کا انکار کرنے والے ایمان سے محروم ہیں۔
ھداھم اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4738
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6614
6614. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور موسیٰ ؑ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہمیں محرومی سے دوچار کیا اور جنت سے باہر نکال پھینکا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا: اے موسٰی اللہ تعالٰی نے تجھے ہم کلامی کے ساتھ برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے (تورات کو) لکھا، کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ آخر آدم ؑ اس مباحثے میں موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:۔ سفیان نے کہا: ہم سے ابو زناد نے بیان کیا اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اس جیسی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6614]
حدیث حاشیہ:
ظاہر یہی ہے کہ یہ بحث اسی وقت ہوئی ہوگی جب حضرت موسیٰ دنیا میں تھے۔
بعض نے کہا کہ قیامت کے دن یہ بحث ہوگی۔
امام بخاری نے عنداللہ کہہ کر یہی اشارہ کیا ہے۔
ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی اے رب! ہم کو آدم دکھلا جس نے ہم کو جنت سے نکالا اس پر یہ ملاقات ہوئی۔
آدم تقدیر کا حوالہ دے کر غالب ہوئے۔
یہی کتاب القدر سے مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6614
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7515
7515. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ ؑ نے آپس میں بحث کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: آپ وہی آدم ہیں ناں جنہوں نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا تھا؟ سیدنا آدم ؑ نے جواب دیا: آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی گفتگو سے شرف یاب کیا تھا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے امر کے سبب ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا آدم ؑ سیدنا موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7515]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت موسیٰ کے لیے کلام کا صاف اثبات ہے پس اس کی تاویل کرنے والے سراسر غلطی پرہیں۔
جب اللہ ہرچیز پر قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ بلا توسط غیرے جس سے چاہے کلام کر سکے جیسا کہ حضرت موسیٰ سے کیا۔
یہ جہمیہ اورمعتزلہ کے خیال فاسد کی صریح تردید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7515
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3409
3409. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ ہی آدم ؑ ہیں کہ آپ کی لغزش نے آپ کو جنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ نے انھیں جواب دیا کہ تم وہی موسیٰ ؑ ہو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا، پھر تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے پیدا ہونےسے پہلے میرا مقدر بن چکی تھی؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ آپ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3409]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔
امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مباحثہ ان حضرات کی وفات کے بعد ہوا۔
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہداء کی طرح زندہ کردیا ہو اور انھوں نے یہ گفتگو کی ہو۔
2۔
حضرت آدم ؑ کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر درخت کا پھل کھانا لازم کردیا تھا کہ انھوں نے بے اختیار اور مجبور ہو کر اسے کھایا بلکہ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو میری زندگی سے پہلے ہی مقدر کردیا تھا اور اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ یہ ہو کر رہے گا اس لیے میں اللہ کے علم اور فیصلے کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتا تھا اور آپ اللہ کے علم سابق سے بے خبر ہو کر صرف میرے اختیار اور کسب کا ذکر کرتے ہو جو ایک سبب کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور اصل معاملے کو بھول گئے ہو جو تقدیر سے عبارت ہے۔
(عمدة القاري: 143/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4736
4736. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حضرت آدم اور حضرت موسیٰ ؑ کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت آدم ؑ سے کہا: آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا؟ حضرت آدم ؑ نے انہیں جواب دیا: تو وہی ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا اور تجھے خود اپنے لیے پسند کیا، نیز آپ پر تورات نازل فرمائی؟ حضرت موسٰی ؑ نے جواب دیا: ہاں۔ (میں وہی ہوں۔) حضرت آدم ؑ نے فرمایا: آپ نے تو (تورات میں لکھا) دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا؟ حضرت موسٰی ؑ نے جواب دیا: جی ہاں (معلوم ہے)، چنانچہ حضرت آدم ؑ اس طرح موسٰی ؑ پر غالب آ گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4736]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ساری زندگی اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے تکلیفوں اور پریشانیوں میں گزری، آخر ایک دن سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم اس عالم رنگ وبو میں نہ آتے تو شاید ان ذہنی کوفتوں سے دوچار نہ ہوتے پھر اللہ تعالیٰ سے حضرت آدم سے ملاقات کا سوال کردیا تاکہ انھیں اپنی عرض داشت پیش کرکے اپنا غم ہلکا کرلوں جس کی تفصیل درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی:
اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام دکھلا، جنھوں نے ہمیں اور ا پنے آپ کو بھی جنت سے نکال دیا تھا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کرا دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ ہاں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ ہی وہ ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے ا پنی روح پھونکی تھی اور تمام چیزوں کے نام تعلیم کیے تھے اور تمام فرشتوں کو حکم دیا توانھوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
ہاں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ کو کس چیز نے آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو جنت سے نکال باہر کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
تم کون؟ انھوں نے کہا:
میں موسیٰ علیہ السلام ہوں۔
فرمایا:
تم ہی بنی اسرائیل کے وہ نبی ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے پر پردہ کلام فرمایا تھا اور اپنے اور تمہارے درمیان اپنی مخلوق میں سے کسی کو واسطہ نہیں بنایا تھا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
ہاں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
کیاتم نے نہیں پایا کہ یہ سب کچھ میرے پیدا کیے جانے سے پہلے ہی کتاب اللہ میں تھا؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
کیوں نہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
پھر تم مجھے کس چیز پر ملامت کرتے ہو، حالانکہ وہ مجھ سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں تھی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حضرت آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آگئے۔
“ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702)
2۔
"تقدیر" یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے، کہیں بھی اس سے زرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہوسکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا، لہذا انسانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور عذر اور بہانہ پیش کریں کیونکہ ہر ایک کوصحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔
لیکن ماضی کے حقائق میں تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس تقدیر کو بطور عذر پیش کیا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4736
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4738
4738. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت موسٰی ؑ نے سیدنا آدم ؑ سے بحث کی اور ان سے کہا: آپ ہی نے اپنے غلطی کی وجہ سے لوگوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا؟ حضرت آدم ؑ نے فرمایا: اے موسٰی! آپ کو اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا ہے، کیا آپ مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسٰی ؑ پر بحث میں غالب آ گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4738]
حدیث حاشیہ:
تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کرنا درست نہیں لیکن حضرت آدم علیہ السلام نے تقدیر کو بطور عذر پیش کیا۔
دراصل تقدیر کا بہانہ بنانے کی دوقسمیں ہیں:
ایک یہ کہ نافرمانی اور گناہوں پر جراءت کرنے کے لیے آدمی تقدیر کا حوالہ دے کر اس مصیبت اور گناہ میں میرا کوئی قصور نہیں تو یہ تقدیرمیں لکھا تھا۔
بلاشبہ اس طرح کا عذر جائز نہیں۔
دوسری قسم یہ کہ انسان نے گناہ سے توبہ کرلی، لیکن اس کے باوجود دل مطمئن نہیں تو اپنے دل کی تسلی کے لیے ایسے موقع پر تقدیر کو بطور بہانہ پیش کرناجائز ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی پر توبہ کرلی تھی لیکن اپنے دل کی تسلی کے لیے اعتذار بالقدر کیا ہے، پھر اس بحث میں حضرت آدم علیہ السلام کے غالب ہونے کا سبب یہ تھا کہ ان کی نظر ازلی تقدیر پر تھی کہ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کی نظر ظاہری کسب پر تھی جو تقدیر ازلی کے تابع ہے، اس لیے حضرت آدم علیہ السلام کو غلبہ حاصل ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4738
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6614
6614. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور موسیٰ ؑ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہمیں محرومی سے دوچار کیا اور جنت سے باہر نکال پھینکا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا: اے موسٰی اللہ تعالٰی نے تجھے ہم کلامی کے ساتھ برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے (تورات کو) لکھا، کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ آخر آدم ؑ اس مباحثے میں موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:۔ سفیان نے کہا: ہم سے ابو زناد نے بیان کیا اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اس جیسی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6614]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں یہ مباحثہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے فضائل کا ذکر ہے، اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے تورات لکھی تھی؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
چالیس سال پہلے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا ملا تھا:
آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا؟ انہوں نے کہا:
جی ہاں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
”پھر تم مجھے اسی بات پر ملامت کیوں کرتے ہو جس کا کرنا اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔
“ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6744 (2652) (2)
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے، فرشتوں سے سجدہ کرانے، جنت میں ٹھہرانے اور ایک درخت کے پاس جانے سے منع کرنے، پھر اس کے کھانے اور اس کی پاداش میں جنت سے نکل جانے کا واقعہ تقدیر میں لکھا تھا۔
اس کے جواب میں حضرت آدم علیہ السلام صرف گریۂ و زاری کرتے رہے، اس کے علاوہ ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالا۔
کلمات استغفار بھی اس وقت کہنے کی جراءت کی جب پروردگار ہی کی طرف سے ان کا القاء کیا گیا۔
یہ صرف خالق کا حق ہے کہ وہ مخلوق سے کسی معاملے کے متعلق باز پرس کرے۔
(3)
ممکن تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ شاید حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اس وقت جواب نہ آ سکا ہو گا، اس عقدہ کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک محفل مکالمہ مرتب فرمائی، حضرت آدم علیہ السلام سے گفتگو کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ایک ایسے فرزند کا انتخاب کیا جو فطرتاً تیز مزاج اور نازوں میں پلے ہوئے تھے تاکہ ان سے گفتگو کی ابتدا کر سکیں اور ان کے سامنے سوال و جواب کا یہی موضوع رکھ دیا۔
بہرحال حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا جواب دیا جس سے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش ہونا پڑا مگر یہاں معاملہ مخلوق کا مخلوق کے سامنے تھا لیکن جب یہی معاملہ خالق کے سامنے پیش آیا تو آدم علیہ السلام کے پاس گریۂ و زاری کرنے (رونے پیٹنے)
کے علاوہ اور کوئی جواب نہ تھا۔
(4)
مصیبت میں تقدیر کا ذکر کرنا رضا بالقضاء کی علامت ہے لیکن گناہ اور معصیت پر تقدیر کا بہانہ پیش کرنا انتہائی جسارت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر، یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے کہیں بھی اس سے ذرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا۔
انسانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کریں کیونکہ ہر شخص کو صحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے لیکن اگر گناہ ہو جائے تو تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6614
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7515
7515. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ ؑ نے آپس میں بحث کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: آپ وہی آدم ہیں ناں جنہوں نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا تھا؟ سیدنا آدم ؑ نے جواب دیا: آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی گفتگو سے شرف یاب کیا تھا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے امر کے سبب ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا آدم ؑ سیدنا موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7515]
حدیث حاشیہ:
1۔
معتزلہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ وہ اسے ہوا یا درخت میں پیدا کرتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے جو کلام سنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں پیدا کیا تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔
اس میں رسالت اور کلام کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔
رسالت کے لیے کوئی فرشتہ وحی لاتا ہے اور کلام کرنا براہ راست ہوتا ہے۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے۔
”حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
تو ایسا رسول ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے پس پردہ براراست گفتگو کی۔
درمیان میں مخلوق وغیرہ کا کوئی واسطہ نہ تھا۔
“ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702 و فتح الباري: 618/11)
3۔
بہر حال اس حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا صاف صاف اثبات ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بغیر واسطے کے جس سے چاہے جب چاہے کلام کر سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا۔
جو لوگ اس کی تاویلیں کرتے ہیں وہ درحقیقت صفت کلام کے انکار کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔
(قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7515