الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
15. باب الحضانة
15. پرورش و تربیت کا بیان
حدیث نمبر: 992
وعن ابن عمر رضي الله عنهماعن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت النار فيها: لا هي أطعمتها وسقتها إذ هي حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو بلی کے قید کرنے میں عذاب دیا گیا جس نے بلی کو اتنی دیر تک باندھے رکھا کہ وہ مر گئی۔ اس عورت کو جہنم میں ڈال دیا گیا کہ نہ تو اس عورت نے بلی کو کچھ کھلایا اور نہ پلایا بلکہ باندھ رکھا اور نہ اسے آزاد چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھا لیتی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 992]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المساقاة، باب فضل سقي الماء، حديث:2365، ومسلم، السلام، باب تحريم قتل الهرة، حديث:2242.»

   صحيح البخاريعذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها ولا سقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض
   صحيح البخاريعذبت امرأة في هرة حبستها حتى ماتت جوعا فدخلت فيها النار قال فقال والله أعلم لا أنت أطعمتها ولا سقيتها حين حبستيها ولا أنت أرسلتها فأكلت من خشاش الأرض
   صحيح مسلمعذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها وسقتها إذ هي حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض
   بلوغ المرام عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت النار فيها : لا هي أطعمتها وسقتها إذ هي حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 992 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 992  
تخریج:
«أخرجه البخاري، المساقاة، باب فضل سقي الماء، حديث:2365، ومسلم، السلام، باب تحريم قتل الهرة، حديث:2242.»
تشریح:
1. سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس عورت کو عذاب بلی کو کھانے پینے سے روکے رکھنے اور اسے بھوکا پیاسا مارنے کی وجہ سے دیا گیا۔
2. اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں کہ بلی کو قتل کرنا حرام ہے اور نہ اس کے جواز کی دلیل ہے بلکہ اس مسئلے میں سکوت ہے۔
بہترین قول یہ ہے کہ جب بلی دشمنی پر اتر آئے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
3. مصنف رحمہ اللہ اس حدیث کو اور اس سے پہلی حدیث کو اس باب میں اس لیے لائے ہیں تاکہ ذمہ دار اور پرورش کرنے والے کو ان کی ذمہ داری کی عظمت اور گراں باری پر متنبہ کریں اور اس پر خبردار کریں کہ جس کی کفالت کی ذمہ داری اس پر ہے‘ اس کی ضروریات زندگی کا خیال اور لحاظ اور اس سے ملاطفت اور حسن سلوک اس کے واجبات اور اس کے آداب میں سے ہے۔
اسے اہمیت نہ دینا‘ معمولی سمجھنا اور اسے ضائع کرنا اللہ کے ہاں کبیرہ گناہ ہے جس کا اس کے ہاں مؤاخذہ ہو گا اور اس وجہ سے اسے عذاب دیا جائے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 992   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2365  
´پانی پلانے کے ثواب کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، قَالَ: فَقَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ لَا أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلَا سَقَيْتِهَا حِينَ حَبَسْتِيهَا، وَلَا أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا فَأَكَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک عورت کو عذاب، ایک بلی کی وجہ سے ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی۔ اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ جب تو نے اس بلی کو باندھے رکھا اس وقت تک نہ تو نے اسے کھلایا نہ پلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2365]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2365 کا باب: «بَابُ فَضْلِ سَقْيِ الْمَاءِ:» � باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ ہر جاندار پر احسان کرنا لازم ہے، جانوروں میں چاہے وہ جانور جو حلال ہوں یا وہ حرام ہوں۔ بالغرض ہر ایک کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے پانی پلانے کی فضیلت پر اشارہ فرمایا ہے جبکہ حدیث میں پانی پلانے کی فضیلت کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ الٹا عذاب کا ذکر موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و مناسبت حديث الهرة للترجمة من جهة أن المرأة عوقبت على كونها لم تسقها، فمقتضاه أنها لو سقتها لم تعذب» [فتح الباري، ج 5، ص: 37]
بلی والی حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت کچھ اس طرح ہے کہ عورت کو عذاب اس لیے دیا گیا کہ اس نے بلی کو پیاسا رکھا۔ پس اس حدیث کا تقاضا یہ ہوا کہ اگر وہ اسے پیاسا نہ رکھتی تو عذاب نہ دیا جاتا، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود ہے۔
فائدہ:
جس عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا وہ مسلمہ تھی یا کافرہ؟
ترجمۃ الباب سے اس کی کوئی وضاحت مع صراحت موجود نہیں ہے کہ وہ عورت مسلمان تھی یا کافرہ، یا عذاب اس کو اس کے کفر کی وجہ سے دیا جا رہا تھا یا بلی کے قید کرنے کے سبب . . .۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ عورت کافرہ تھی اور اس کو عذاب اس کے کفر ہی کی وجہ سے دیا جا رہا تھا، اور اس عذاب میں زیادتی بلی کو بھوکا مارنے کی وجہ سے تھی، اور اس کا مومنہ نہ ہونے کی وجہ سے اس زیادتی عذاب کی بھی مستحق ہوئی تھی۔ اگر وہ مومنہ ہوتی تو اس کے صغائر تو کبائر سے اجتناب کی وجہ سے ویسے ہی معاف کر دیے جاتے۔ [المنهاج شرح صحيح مسلم، ج 14ص: 460]
ابوعیسی زکریا الانصاری نے فرمایا کہ:
بلی کے قید کے علاوہ اس کے عذاب کا دوسرا سبب بھی موجود ہے کہ وہ عورت کافرہ تھی۔ [منحة الباري، ج 5، ص: 136]
لہذا امام بزار رحمہ اللہ نے مسند بزار اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البعث والنشور، ص: 53 میں ذکر فرمایا ہے کہ:
«أن المرأة كانت كافرة فاستحقت العذاب بكفرها و ظلمها»
یعنی وہ عورت کافرہ تھی، پس وہ عذاب کی مستحق ٹھہری اپنے کفر اور بلی پر ظلم کی وجہ سے۔
مجمع الزوائد میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل فرمائی ہے کہ وہ عورت کافرہ تھی۔ [مجمع الزوائد، ج 1، ص: 191]
تنبیہ: صاحب تفہیم البخاری نے «خشاش الأرض» کا ترجمہ گھانس پھونس کیا۔ اہل لغت کے نزدیک اس کا معنی گھاس پھونس معروف نہیں ہے، بلکہ اس کا ترجمہ زمین کے کیڑے مکوڑے کرنا معروف ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خشاش کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، اس کا واحد خشاش ہے۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 357]
مجمع البحار میں لکھا ہے:
«خشاش بفتح الخاء الشهر الثلاثة وهى هدام و قيل ضعاف الطير» [مجمع البحار، لغات الحديث، لفظ خ، ص: 48]
مقاییس اللغۃ میں لکھا ہے:
«وخشاش الأرض بتثليث الخاء: الدّواب» [مقاييس اللغة، ج 1، ص: 303، مادة خشش - الصحاح 1004/3، مادة خشش]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 365   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2365  
2365. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو عذاب دیا گیا وہ بھی ایک بلی کے باعث جسے اس نے باندھ رکھاتھا حتیٰ کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی اس بنا پر وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ خوب جانتاہے تو نے اسے کھلایا نہ پلایا جبکہ تو نے اسے باندھے رکھا اس کو چھوڑا بھی نہیں کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2365]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ بلی کو پانی نہ پلانے سے عذاب ہوا تو معلوم ہوا کہ پانی پلانا ثواب ہے۔
ابن منیر نے کہا اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ بلی کا قتل کرنا درست نہیں۔
لطیفہ:
تفہیم البخاری میں خشاش الأرض کا ترجمہ گھانس پھونس کرتے ہوئے بلی کے لیے لکھا ہے کہ نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین سے گھانس پھونس ہی کھا سکے۔
عام طور پر بلی گوشت خور جانور ہے نہ چرندہ کہ وہ گھانس پھونس کھاتی ہو۔
شاید فاضل مترجم کی نظر میں گھانس پھونس کھانے والی بلیاں موجود ہوں ورنہ عموماً بلیاں گوشت خور ہوتی ہیں۔
اسی لیے دوسرے مترجمین بخاری خشاش الارض کا ترجمہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کرتے ہیں۔
خشاش بفتح الخاء أشهر الثلاثة و هي هوام و قیل ضعاف الطیر (مجمع البحار لغات الحدیث، لفظ (خ)
ص: 48)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2365   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3482  
3482. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو اس بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس کو اس نے باندھ رکھا تھا حتیٰ کہ وہ مرگئی۔ وہ اس وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی۔ نہ تو وہ اسے کھلاتی تھی اور نہ پلاتی تھی جبکہ اس نے اسے باندھ رکھا تھا اور نہ اسے چھوڑتی تھی تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3482]
حدیث حاشیہ:
بعض دیوبندی تراجم میں یہاں گھاس پھونس کا ترجمہ کیا گیا ہےجو غالبا لفظ حشاش حائے حلی کا ترجمہ ہےمگر مشاہدہ یہ ہےکہ بلی گھانس نہیں کھاتی۔
اس لیے یہاں لفظ حشاش بھی صحیح نہیں، اور یہ ترجمہ بھی۔
واللہ أعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3482   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2365  
2365. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو عذاب دیا گیا وہ بھی ایک بلی کے باعث جسے اس نے باندھ رکھاتھا حتیٰ کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی اس بنا پر وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ خوب جانتاہے تو نے اسے کھلایا نہ پلایا جبکہ تو نے اسے باندھے رکھا اس کو چھوڑا بھی نہیں کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2365]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کو اس عالم رنگ و بو میں کئی ایک ایسے مشاہدے کرائے گئے جو مستقبل میں پیش آنے والے ہیں، ان میں سے ایک مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
ان احادیث کے مطابق ایک بلی کو بھوکا اور پیاسا رکھنے کی وجہ سے عورت کو عذاب دیا گیا۔
اگر وہ اسے کھلاتی اور پلاتی تو عذاب نہ ہوتا۔
اس سے پانی پلانے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
(2)
آخری حدیث میں عورت کے جرم کی نوعیت بتائی گئی ہے کہ اس عورت کی طبیعت ہی اذیت رسانی کی تھی کیونکہ کوئی شخص اتفاقاً ایسا نہیں کرتا جیسا کہ اس عورت نے بلی کے ساتھ کیا۔
اس واقعے سے اس عورت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2365   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3482  
3482. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو اس بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس کو اس نے باندھ رکھا تھا حتیٰ کہ وہ مرگئی۔ وہ اس وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی۔ نہ تو وہ اسے کھلاتی تھی اور نہ پلاتی تھی جبکہ اس نے اسے باندھ رکھا تھا اور نہ اسے چھوڑتی تھی تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3482]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کے بارے میں حساب کتاب ہوگا۔
اگر وہ عورت مومن تھی تو اپنے جرم کی سزا بھگت کر جہنم سے نکل آئے گی اور اگر وہ کافر تھی تو ہمیشہ کے لیے عذاب برداشت کرے گی۔

بعض مترجمین نے خشاش کے معنی گھاس پھونس کیا ہے جو صحیح نہیں کیونکہ بلی گھاس پھونس نہیں کھاتی بلکہ اس کے معنی زمین کے کیڑے مکوڑے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3482