تخریج: «أخرجه البخاري، المساقاة، باب فضل سقي الماء، حديث:2365، ومسلم، السلام، باب تحريم قتل الهرة، حديث:2242.»
تشریح:
1. سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس عورت کو عذاب بلی کو کھانے پینے سے روکے رکھنے اور اسے بھوکا پیاسا مارنے کی وجہ سے دیا گیا۔
2. اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں کہ بلی کو قتل کرنا حرام ہے اور نہ اس کے جواز کی دلیل ہے بلکہ اس مسئلے میں سکوت ہے۔
بہترین قول یہ ہے کہ جب بلی دشمنی پر اتر آئے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
3. مصنف رحمہ اللہ اس حدیث کو اور اس سے پہلی حدیث کو اس باب میں اس لیے لائے ہیں تاکہ ذمہ دار اور پرورش کرنے والے کو ان کی ذمہ داری کی عظمت اور گراں باری پر متنبہ کریں اور اس پر خبردار کریں کہ جس کی کفالت کی ذمہ داری اس پر ہے‘ اس کی ضروریات زندگی کا خیال اور لحاظ اور اس سے ملاطفت اور حسن سلوک اس کے واجبات اور اس کے آداب میں سے ہے۔
اسے اہمیت نہ دینا‘ معمولی سمجھنا اور اسے ضائع کرنا اللہ کے ہاں کبیرہ گناہ ہے جس کا اس کے ہاں مؤاخذہ ہو گا اور اس وجہ سے اسے عذاب دیا جائے گا۔