1. پانی کی اقسام (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان)
حدیث نمبر: 9
وعن أبي قتادة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال في الهرة: «إنها ليست بنجس، إنما هي من الطوافين عليكم» .أخرجه الأربعة وصححه الترمذي وابن خزيمة.
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ”وہ نجس نہیں ہے کیونکہ یہ ہر وقت آمد و رفت رکھنے والا گھریلو جانور ہے۔“ اس روایت کو چاروں ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 9]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود،الطهارة، باب سؤر الهرة، حديث:75، والترمذي، الطهارة، حديث:92، وابن ماجه، الطهارة، حديث:367، والنسائي، الطهارة، حديث:68، وابن خزيمة: 1 / 55، حديث:104، وابن حبان(الموارد)، حديث:121، والحاكم: 1 /160، ووافقه الذهبي.»
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 9
جس پانی میں بلی منہ ڈال جائے اس کا حکم ایسے پانی سے وضو کرنا مباح و درست ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل اس پر شاہد ہیں: ➊ حضرت کبثہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے لیے وضو کا پانی ڈالا۔ (اچانک) ایک بلی آئی اور اس برتن سے پینے لگی۔ اس پر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے مزید اس برتن کو بلی کے لیے ٹیڑھا کر دیا حتی کہ بلی نے اس سے پی لیا۔ حضرت کبثہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت مجھے دیکھ لیا جب میں انہیں دیکھ رہی تھی تو انہوں نے کہا: ”اے بھتیجی! کیا تو تعجب کرتی ہے؟ تو میں نے کہا: ”ہاں“ پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ» ”یہ نجس و پلید نہیں ہے، یہ تو تم پر پھرنے والی ہے۔“[أبو داود 75]۱؎ ➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَوَضَّأُ بِفَضْلِهَا» ”بے شک میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے (یعنی بلی کے) بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیتے تھے۔“[أبو داود 76]۲؎ (امام شافعی، امام احمد، امام مالک) بلی کا جوٹھا پانی پاک ہے۔ امام لیث، امام ثوری، امام اوزاعی، امام اسحاق، امام ابوثور، امام ابوعبید، امام علقمہ، امام ابراہیم، امام عطاء، امام حسن، امام ابن عبدالبر، اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔ (امام ابوحنیفہ) بلی کا جوٹھا درندے کے جوٹھے کی طرح نجس ہے، لیکن اس میں کچھ تخفیف کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بلی کا بچا ہوا کراہت کے ساتھ پاک ہے۔ [المجموع 224/1، المبسوط 38/1] ◈ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ”بلی درندہ ہے۔“[أحمد 327/2]۳؎ ↰ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے: ➊ گذشتہ صحیح حدیث سے اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ ➋ درندگی نجاست کو مستلزم نہیں یعنی یہ ضروری نہیں کہ جو درندہ ہو نجس بھی ہو۔ [نيل الأوطار 79/1] (راجح) ائمہ ثلاثہ کا موقف برحق ہے۔ [تحفة الأحوذي 326/1]
6- ایک من گھڑت روایت جس روایت میں مذکور ہے: «حب الهرة من الإيمانه» ”بلی سے محبت کرنا ایمان سے ہے۔“ وہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ [تحفة الأحوذي 327/1]۴؎ * * * * * * * * * * * * * * ۱؎[حسن: صحيح أبى داود 68، كتاب الطهارة: باب سؤر الهرة، أبو داود 75، ترمذي 92، ابن ماجة 367، نسائي 55/1، مؤطا 23/1، مسند شافعي 39، أحمد 303/5، ابن خزيمة 104، دارقطني 70/1، حاكم160/1، بيهقي 240/1، عبدالرزاق 353، ابن أبى شيبة 31/1، شرح السنة 376/1، شرح معاني الآثار 18/1، مشكل الآثار 270/3] ۲؎[صحيح: صحيح أبو داود 69، كتاب الطهارة: باب سؤر الهرة، أبو داود 76، طبراني اوسط 36/1، دارقطني 70/1، مشكل الآثار 270/3، بيهقي 246/1] ۳؎[أحمد 327/2، دارقطني 63/1، حاكم 183/1] ۴؎[تحفة الأحوذي 327/1، مرقاة المفاتيح 188/2، كشف الخفاء 415/1]
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 141
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 9
� لغوی تشریح: «فِي الْهِرَّةِ» یعنی بلی کے حکم کے بارے میں بتایا کہ اس کا حکم شرعی کیا ہے؟ «هِرَّةِ» کے علاوہ اسے «قط» اور «سنور» بھی کہتے ہیں۔ «الطَّوَّافِينَ»”واؤ“ کی تشدید کے ساتھ ہے۔ واحد اس کا «طواف» ہے اور طواف اس کو کہتے ہیں جس کی آمدورفت بکثرت ہو۔ اور وہ گھر کا خادم ہوتا ہے۔ بلی کو خادم کے ساتھ تشبیہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ بلی کی نوعیت اس گھریلو خادم کی سی ہے جس کا گھریلو کام کے سلسلے میں اہل خانہ کے پاس ملنے جلنے اور ان کی ضروریات کی فراہمی کی لیے کثرت سے آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ دشواری اور دقت کو دور کرنے کی غرض سے بلی کو غیر نجس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے غیر نجس ہونے سے ثابت ہوا کہ اس کا جوٹھا پاک ہے۔
فوائد ومسائل: ➊ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے وضو کا برتن ایک جگہ رکھا تھا کہ اتنے میں بلی آئی اور اس برتن میں منہ ڈال کر پانی پینے لگی۔ تو سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس برتن کو فوراً جھکا دیا تاکہ بلی آسانی سے سیر ہو کر پی لے۔ سیدہ کبشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”بلی نجس نہیں ہے۔“[سنن ابي داود، الطهارة، باب سؤرالهرة۔ حديث: 75] ➋ اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ بلی کا جوٹھا پلید نہیں ہے بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو۔
راویٔ حدیث: SR سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ:ER ابوقتادہ ان کی کنیت ہے اور اصل نام حارث بن ربعی ہے۔ بڑے مشہور ومعروف صحابی ہیں۔ رضی اللہ عنہ۔ فارس (شہسوار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور ہیں۔ انصار سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انصاری کہلائے۔ غزوہ احد اور بعد والی جنگوں میں شریک رہے۔ جائے وفات میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ مدینے میں اور بعض نے کہا: کوفے میں 54 ہجری کو فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 9
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 68
´بلی کے جھوٹے کا حکم۔` کبشہ بنت کعب بن مالک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، پھر (کبشہ نے) ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے ان کے لیے وضو کا پانی لا کر ایک برتن میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آئی اور اس سے پینے لگی، تو انہوں نے برتن ٹیڑھا کر دیا یہاں تک کہ اس بلی نے پانی پی لیا، کبشہ کہتی ہیں: تو انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں انہیں (حیرت سے) دیکھ رہی ہوں، تو کہنے لگے: بھتیجی! کیا تم تعجب کر رہی ہو؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ناپاک نہیں ہے، یہ تو تمہارے پاس بکثرت آنے جانے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 68]
68۔ اردو حاشیہ: بلی درندوں میں شامل ہے اور درندوں کا جوٹھا پلید ہوتا ہے، مگر بلی چونکہ گھریلو اور پالتو جانور ہے، گھروں میں اس کا کثرت سے آنا جانا رہتا ہے، اسے روکا بھی نہیں جا سکتا اور یہ عام طور پر برتنوں میں منہ ڈالتی رہتی ہے، اس مجبوری کے پیش نظر اس کا جوٹھا پلید نہیں کہا گیا۔ ویسے بھی یہ صاف ستھرا رہنے والا جانور ہے۔ منہ کو خصوصاً صاف رکھتی ہے، البتہ اگر اس کے منہ پر ظاہری نجاست لگی ہو اور وہ کسی برتن میں منہ ڈال دے تو وہ یقیناًً پلید ہو جائے گا۔ لیکن بلاوجہ شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہونا چاہیے، عام ضابطہ وہی ہے جو ذکر ہو چکا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 68
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 341
´بلی کے جھوٹے کا بیان۔` کبشہ بنت کعب سے روایت ہے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے (پھر راوی نے ایک کلمے کا ذکر کیا جس کا مفہوم ہے) کہ میں نے ان کے لیے وضو کا پانی (لوٹے میں) ڈالا، اتنے میں ایک بلی آئی، اور اس سے پینے لگی، تو انہوں نے اس کے لیے برتن جھکا دیا یہاں تک کہ اس نے پی لیا، کبشہ کہتی ہیں: تو انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں انہیں (تعجب سے) دیکھ رہی ہوں، تو کہنے لگے: بھتیجی! کیا تم تعجب کر رہی ہو؟ میں نے کہا: ہاں! تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ ناپاک نہیں ہے، یہ تو تمہارے پاس بکثرت آنے جانے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہے۔“[سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 341]
341۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 68 کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 341
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث367
´بلی کے جھوٹے سے وضو کے جائز ہونے کا بیان۔` کبشہ بنت کعب رضی اللہ عنہما جو ابوقتادہ کی بہو تھیں کہتی ہیں کہ انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے وضو کے لیے پانی نکالا تو ایک بلی آئی اور اس میں سے پینے لگی، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے برتن جھکا دیا، میں ان کی جانب حیرت سے دیکھنے لگی تو انہوں نے کہا: بھتیجی! تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بلی ناپاک نہیں ہے وہ گھروں میں گھومنے پھرنے والوں یا والیوں میں سے ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 367]
اردو حاشہ: (1) بزرگوں کی خدمت اور چھوٹوں پر شفقت اور ان کی تربیت ضروری ہے۔
(2) بے زبان جانوروں پر رحم کرنا چاہے (3) بلی کا جوٹھا ناپاک نہیں۔
(4) اسلام سہولت اور آسانی والا دین ہے۔ چونکہ بلیوں کو گھروں میں آنے سے روکنا ممکن نہیں اس لیے ان کے بارے میں حکم نرم کردیا گیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 367
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 92
´بلی کے جھوٹے کا بیان۔` کبشہ بنت کعب (جو ابن ابوقتادہ کے نکاح میں تھیں) کہتی ہیں کہ ابوقتادہ میرے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے (ایک برتن) وضو کا پانی میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آ کر پینے لگی تو انہوں نے برتن کو اس کے لیے جھکا دیا تاکہ وہ (آسانی سے) پی لے، کبشہ کہتی ہیں: ابوقتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا: بھتیجی! کیا تم کو تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ (بلی) نجس نہیں، یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 92]
اردو حاشہ: 1؎: اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلی کا جھوٹا نا پاک نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو، اس حدیث میں بلی کو گھر کے خادم سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ خادموں کی طرح اس کا بھی گھروں میں آنا جانا بہت رہتا ہے، اگر اسے نجس و نا پاک قرار دے دیا جاتا تو گھر والوں کو بڑی دشواری پیش آتی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 92
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 41
حضرت کبشہ بنت کعب سے روایت ہے کہ سیّدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ گئے ان کے پاس تو رکھا کبشہ نے ایک برتن میں پانی ان کے وضو کے لیے، پس آئی بلی اس میں سے پینے کو تو جھکا دیا برتن کو سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے یہاں تک کہ پی لیا بلی نے پانی۔ کہا کبشہ نے: دیکھ لیا... [موطا امام مالك: 41]
فائدہ:
.... جس طرح غلام اور لونڈیاں، خادم اور خادمائیں اور چھوٹے بچے گھروں میں آتے جاتے اور چکر لگاتے ہی رہتے ہیں اسی طرح بلیوں کا معاملہ ہے، چنانچہ اُمت کو مشقت سے بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کو پاک قرار دیا ہے یعنی وہ نجس نہیں ہے، احناف بلی کے جھوٹھے کو مکروہ کہنے میں متفرد ہیں.... یاد رہے کہ پاک و پلید ہونا اور حرام و حلال ہونا دو الگ الگ معاملے ہیں، بلی کے پاک ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا جسم ناپاک نہیں ہے، یہ مطلب قطعاََ نہیں کہ وہ حلال بھی ہے، جس طرح کہ مومن بھی پاک ہے لیکن اس کا گوشت کسی کے لیے حلال نہیں، بلی جس برتن میں منہ مار جائے اُسے بغیر کسی کراہت کے استعمال کریں، سوائے ایک صورت کے کہ جب آپ اُس کے منہ پر ظاہری گندگی کے آثار دیکھیں، چنانچہ اگر وہ کسی چوہے یا کسی دوسری ناپاک چیز کا شکار تازہ تازہ کر کے یا اُسے کھا کر آئی ہو اور فوراً کسی کھانے پینے کی چیز میں منہ ڈال دے تو منہ پر لگی نجاست کی وجہ سے پانی ناپاک ہو جائے گا، البتہ بلی کو تھوڑا سا وقفہ مل جائے تو وہ اپنی زبان سے اپنی مکمل صفائی کر لیتی ہے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 41