الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
2. باب الكفاءة والخيار
2. کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان
حدیث نمبر: 864
وعن زيد بن كعب بن عجرة عن أبيه قال: تزوج رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم العالية من بني غفار،‏‏‏‏ فلما دخلت عليه،‏‏‏‏ ووضعت ثيابها،‏‏‏‏ رأى بكشحها بياضا،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏البسي ثيابك والحقي بأهلك» ‏‏‏‏ وأمر لها بالصداق. رواه الحاكم وفي إسناده جميل بن زيد وهو مجهول واختلف عليه في شيخه اختلافا كثيرا.
سیدنا زید بن کعب بن عجرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غفار کی عالیہ نامی خاتون سے نکاح کیا۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (خلوت میں) داخل ہوئی اور اس نے اپنا لباس اتارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پہلو میں پھلبہری (برص) کے داغ دیکھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اپنے کپڑے پہن لے اور اپنے میکے چلی جا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے حکم ارشاد فرمایا کہ مہر دے دیا جائے۔ اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں جمیل بن زید ایسا راوی ہے جو مجہول ہے اس کے استاد میں بہت اختلاف کیا گیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 864]
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم:4 /34، وفيه علل أخري مع العلة التي ذكرها المؤلف رحمه الله.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 864 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 864  
تخریج:
«أخرجه الحاكم:4 /34، وفيه علل أخري مع العلة التي ذكرها المؤلف رحمه الله.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلاق کنائے کے الفاظ میں بھی معتبر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالیہ کو اِلْحَقِي بِأَھْلِکِ کے الفاظ میں طلاق دی۔
گویا طلاق بالکنایہ شریعت میں قابل اعتبار ہے۔
2.یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ برص وہ عیب ہے جس سے نکاح فسخ ہو سکتا ہے۔
3. حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ چار عیوب ایسے ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کو رد کیا جا سکتا ہے: جنون‘ جذام‘ برص‘ اندام نہانی کی بیماری یا آتشک و سوزاک وغیرہ جیسا کہ آئندہ حدیث: ۸۶۵ کے تحت آ رہا ہے۔
لیکن یہ حدیث منقطع ہے۔
جمہور علماء باعث نفرت بیماری کی بنا پر فسخ نکاح کے قائل ہیں مگر داود ظاہری اور ابن حزم وغیرہ کسی عیب کی وجہ سے فسخ نکاح کے سرے سے قائل ہی نہیں۔
راویٔ حدیث:
«حضرت زید بن کعب بن عجرہ رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ایک قول کے مطابق یہ بنو سالم بن عوف سے ہیں۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق بنوسالم بن بَلِـي خزرج کے حلیف قبیلے سے ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی طرف نسبت ہے۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص المستدرک میں ابن معین کا قول نقل کیا ہے کہ یہ ثقہ نہیں ہے‘ حالانکہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول جمیل بن زید کے بارے میں ہے۔
وضاحت: «حضرت عالیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ کہا گیا ہے کہ یہ بنو بکر بن کلاب سے تھیں اور یہی عالیہ بنت ظبیان ہیں۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلابیہ‘ عالیہ کے سوا کوئی اور خاتون ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالیہ کے پاس ایک عرصہ ٹھہرے‘ پھر اسے طلاق دے دی۔
«جمیل بن زید» یہ جمیل بن زید طائی ہے۔
امام ابن معین اور نسائی نے کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کی حدیث صحیح نہیں‘ نیز ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 864