وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم رد ابنته زينب على أبي العاص بن الربيع بنكاح جديد. قال الترمذي حديث ابن عباس أجود إسنادا والعمل على حديث عمرو بن شعيب.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس جدید نکاح کر کے واپس بھیجا۔ ترمذی نے کہا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سند کے اعتبار سے عمدہ ترین ہے مگر عمل عمرو بن شعیب سے مروی حدیث پر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 862]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، النكاح، باب ما جاء في الزوجين المشركين يسلم أحدهما، حديث:1142.* حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 862
تخریج: «أخرجه الترمذي، النكاح، باب ما جاء في الزوجين المشركين يسلم أحدهما، حديث:1142.* حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس.»
تشریح: امام ترمذی رحمہ اللہ کا جو یہ قول ہے: ”عمل عمرو بن شعیب والی حدیث پر ہے۔ “ تو اس سے مراد صرف اہل عراق کا عمل ہے نہ کہ تمام فقہاء و محدثین کا۔ اور بلاشبہ ان کا ضعیف حدیث پر عمل کرنا اور قوی کو ترک کر دینا‘ ضعیف حدیث کو قوی نہیں کر سکتا بلکہ ان کا یہ طرز عمل خود ان کے عمل کے ضعف کا باعث ہے۔ (سبل السلام)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 862
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1142
´اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟` عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹا دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1142]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جو آگے آ رہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایا اوریہی صحیح ہے۔
نوٹ: (اس کے راوی ”حجاج بن ارطاۃ“ ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے سند میں ان کے اور ”عمروبن شعیب“ کے درمیان انقطاع ہے، اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1142