الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
1. (أحاديث في النكاح)
1. (نکاح کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 826
وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يأمرنا بالباءة،‏‏‏‏ وينهى عن التبتل نهيا شديدا،‏‏‏‏ ويقول: «‏‏‏‏تزوجوا الولود الودود،‏‏‏‏ فإني مكاثر بكم الأنبياء يوم القيامة» .‏‏‏‏ رواه أحمد،‏‏‏‏ وصححه ابن حبان،‏‏‏‏ وله شاهد عند أبي داود والنسائي وابن حبان من حديث معقل بن يسار.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نکاح کرنے کا حکم ارشاد فرماتے اور تجرد کی زندگی سے سختی سے منع فرماتے اور فرماتے تھے کہ بہت محبت کرنے اور چاہنے والی، بہت بچے جننے والی خواتین سے نکاح کرو۔ اس لئے کہ میں تمہاری کثرت کی بدولت قیامت کے روز دوسرے انبیاِء (علیہم السلام) پر فخر کرنے والا ہوں۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے نیز اس حدیث کا ایک شاہد ابوداؤد، نسائی اور ابن حبان میں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 826]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:3 /158، 245، وابن حبان (موارد الظمآن)، حديث:1228، وللحديث شواهد، وحديث معقل بن يسارأخرجه أبوداود، النكاح، حديث:2050، والنسائي، النكاح، حديث:3229، وابن حبان (الموارد)، حديث:1229.»

   سنن أبي داودتزوجوا الودود الولود إني مكاثر بكم الأمم
   سنن النسائى الصغرىتزوجوا الولود الودود إني مكاثر بكم
   بلوغ المرام تزوجوا الولود الودود ،‏‏‏‏ فإني مكاثر بكم الأنبياء يوم القيامة

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 826 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 826  
تخریج:
«أخرجه أحمد:3 /158، 245، وابن حبان (موارد الظمآن)، حديث:1228، وللحديث شواهد، وحديث معقل بن يسارأخرجه أبوداود، النكاح، حديث:2050، والنسائي، النكاح، حديث:3229، وابن حبان (الموارد)، حديث:1229.»
تشریح:
1. قرآن و حدیث کے بہت سے دلائل نکاح کی ترغیب و تحضیض کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
ان دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض علماء نے نکاح کرنا فرض قرار دیا ہے جبکہ کچھ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔
2.قرآن و حدیث سے جو بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ نکاح کو علیٰ الاطلاق فرض یا مستحب قرار دینا محل نظر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے۔
وہ اس طرح کہ (ا)جو لوگ جسمانی طور پر تندرست ہوں‘ انھیں برائی کا خدشہ ہو‘ شادی کے ضروری اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہوں اور بعدازاں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جائز اور ضروری اخراجات بھی برداشت کر سکتے ہوں تو شرعاً ایسے لوگوں پر نکاح کرنا فرض ہے۔
(ب) جو لوگ مذکورہ بالا صفات سے عاری ہوں‘ بالخصوص جب وہ حق زوجیت ادا نہ کر سکتے ہوں تو ان کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔
(ج)اور جو لوگ اس کے مابین ہیں ان کے لیے نکاح مستحب ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
3. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح اور شادی کا مقصد محض جنسی تسکین اور نفسانی لذت ہی نہیں بلکہ اصل مقصد اس عظیم مشن کی تاسیس و تکمیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باقی انبیاء علیہم السلام پر وجہِ افتخار ہے‘ یعنی نکاح کا اصل مقصد بچے دو ہی اچھے نہیں بلکہ کثرتِ اولاد ہی مقصد ہے۔
4.پاکیزہ اور صالح نسل کی جس قدر کثرت ہو گی‘ اسلامی اقدار و روایات کی اسی قدر ترویج ہو گی۔
اور یہی چیز نکاح کا ایک بہت بڑا مقصد ہے۔
5. یہ حدیث اس بات کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے کہ بانجھ‘ یعنی بچے جننے کی صلاحیت سے محروم عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے برعکس بہت زیادہ بچے جننے والی عورت کو حبالۂ عقد میں لانا چاہیے کیونکہ نکاح کا اصل مقصد حصولِ اولاد ہے اور ہونا بھی چاہیے‘ لہٰذا جو خاتون اس وصف سے محروم ہو‘ اس سے نکاح کرنا ہی بے فائدہ ہے‘ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بانجھ عورت سے نکاح کرنا مطلقاً ہی ممنوع ہے‘ اس لیے کہ بسااوقات صرف توالد و تناسل کے لیے نہیں بلکہ کچھ دوسرے مقاصد کے پیش نظر بھی نکاح کیا جاتا ہے‘ چنانچہ ایسی صورت میں نکاح کرنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ بھی ہے۔
6.سنن ابوداود (اردو‘ طبع دارالسلام) کی حدیث (۲۰۵۰) کے فوائد میں مذکور ہے: بیوہ عورت کے متعلق تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ عقیم (بانجھ) ہے مگر کنواری میں حیض کا نہ آنا ایک امکانی سبب ہے‘ یقینی نہیں (لہٰذا ایسی صفات والی خاتون کے ساتھ عقد کرنے سے اجتناب بہتر ہے۔
)
واللّٰہ أعلم۔
7.سنن ابوداود کی مذکورہ حدیث کے فوائد میں حدیث شریف کے اس جملے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی کی بابت مذکور ہے کہ یہ صفات خاندانی عرف سے جانی جا سکتی ہیں‘ ویسے کنواری لڑکیوں میں یہ اوصاف بالعموم فطرتاً پائے جاتے ہیں۔
8. کنواری لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے صرف مذکورہ بالا فوائد ہی نہیں بلکہ دیگر کئی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کی طرف جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ راہنمائی فرمائی ہے: ارشاد گرامی ہے: «عَلَیْکُمْ بِالْأَبْکَارِ فَإِنَّھُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاھًا‘ وَأَنْتَقُ أَرْحَامًا‘ وَ أَرْضٰی بِالْیَسِیرِ» (سنن ابن ماجہ‘ النکاح‘ تزویج الأبکار‘ حدیث:۱۸۶۰‘ و الصحیحۃ‘ رقم:۶۲۳) کنواریوں سے نکاح کرو کیونکہ وہ شیریں دہن‘ زیادہ بچے پیدا کرنے والی‘ اور تھوڑی چیز پر (خوب) راضی رہنے والی ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ (مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام) میں اس حدیث کے فوائد میں مذکور ہے کہ شیریں دہن کا مطلب یہ ہے کہ ان میں حیا زیادہ ہوتی ہے‘ اس لیے خاوند کو خوش رکھنے کی زیادہ کوشش کرتی ہیں اور تلخ لہجے میں بات کرنے سے پرہیز کرتی ہیں۔
بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان کا لعاب دہن زیادہ شیریں ہوتا ہے۔
جو عورت پہلے ایک خاوند کے ساتھ زندگی گزار چکی ہو اور اس کے بچے ہوں‘ اب نئے شوہر سے اس کے بچے کم ہونے کی توقع ہے جبکہ کنواری لڑکی سے نکاح کے بعد جتنے بچے ہوں گے وہ سب اسی خاوند کے ہوں گے۔
تھوڑی چیز پر (خوب) راضی ہونے والی ہوتی ہیں اس کی بابت سنن ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث کے تحت فوائد میں مذکور ہے کہ قناعت ایک اچھا وصف ہے۔
جس عورت میں یہ صفت پائی جائے وہ اچھی بیوی ثابت ہو گی۔
بنابریں بیوہ اور مطلقہ سے بھی نکاح کر لینا چاہیے لیکن اگر بیوہ‘ مطلقہ اور کنواری (تینوں) کا رشتہ مل رہا ہو تو کنواری کو ترجیح دینی چاہیے‘ خصوصاً جب کہ مرد نوجوان ہو۔
(اس طرح ان کے مابین زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔
)
9. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اگرچہ زیادہ تر شوہر دیدہ (بیوہ اور مطلقہ) خواتین سے نکاح کیے ہیں (سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے) تاہم آپ کے استحبابی فرامین کنواری لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اس کی بابت دیکھیے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی صحیحین کی وہ روایت جس میں رقم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: «فَھَلاَّ جَارِیَۃً تُلَاعِبُھَا وَ تُلاَعِبُکَ» یعنی تو نے کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی کہ وہ تجھ سے (جی بھرکے) کھیلتی اور تو اس کے ساتھ کھیلتا؟ (صحیح البخاري‘ النکاح‘ حدیث:۵۰۷۹‘ وصحیح مسلم‘ الرضاع‘ حدیث:۷۱۵ بعد حدیث:۱۴۶۶) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کو ترجیح دی جائے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 826   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3229  
´بانجھ عورت سے شادی کرنے کی کراہت کا بیان۔`
معقل بن یسار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ مجھے ایک عورت ملی ہے جو حسب اور مرتبہ والی ہے لیکن اس سے بچے نہیں ہوتے ۱؎، کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ نے اسے (اس سے شادی کرنے سے) منع فرما دیا۔ پھر دوبارہ آپ کے پاس پوچھنے آیا تو آپ نے پھر اسے روکا۔ پھر تیسری مرتبہ پوچھنے آیا، پھر بھی آپ نے منع کیا، پھر آپ نے فرمایا: زیادہ بچے جننے والی، اور زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو ۲؎ کیونکہ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3229]
اردو حاشہ:
(1) مگر وہ بانجھ ہے۔ بعض باتیں مشہور ہوجاتی ہیں، تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یا ممکن ہے اس کی پہلے شادی ہوئی ہو اور بچے نہ ہوئے ہوں۔
(2) منع فرما دیا کیونکہ نکاح کا مقصد صرف شہوت رانی نہیں بلکہ اولاد ہے۔ البتہ ایک دوسرے کا سہارا بننے کے لیے نکاح جائز ہے لیکن یہ عام طور پر بڑی عمر میں ہوتا ہے۔ نوجوان آدمی کو تندرست عورت ہی سے شادی کرنی چاہیے۔
(3) زیادہ بچے جننے والی یعنی کنواری لڑکی کیونکہ بیوہ کے مقابلے میں یہ زیادہ بچے جنتی ہے۔ یا اس بات کا پتہ اس کے خاندان اور اس کی قریبی عورتوں سے ہوسکتا ہے۔
(4) فخر کروں گا یعنی دوسرے انبیاءعلیہم السلام اور امتوں پر جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحتاً وارد ہے۔ (إرواء الغلیل، حدیث: 1784)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3229   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2050  
´بانجھ عورت سے شادی کی ممانعت کا بیان۔`
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: مجھے ایک عورت ملی ہے جو اچھے خاندان والی ہے، خوبصورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر وہ آپ کے پاس دوسری بار آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرمایا، پھر تیسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ (بروز قیامت) میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2050]
فوائد ومسائل:

جس عورت کے متعلق معلوم ہوجائے کہ وہ ولادت کی صلاحیت سے محروم ہے اس سے نکاح نہیں کرنا چاہیے۔
کیونکہ نکاح سے اصل مقصود اولاد کا حصول ہوتا ہے۔
اور ہونا چاہیے۔
تو جو عورت اس وصف ہی سے محروم ہو تو اس سے نکاح کرنے کا کیا فائدہ؟ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بانجھ عورت سے مطلقاً ہی نکاح کرنا ممنوع ہے۔
بلکہ بعض دفع نکاح کے کچھ اور مقاصد بھی ہوتے ہیں۔
تو وہاں ان سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
بلکہ بعض دفعہ پسندیدہ بھی ہوسکتا ہے۔


بیوہ عورت کے متعلق تو معلوم ہوجاتا ہے۔
کہ وہ عقیم ہے۔
مگر کنواری میں حیض نہ آنا ایک امکانی سبب ہوسکتاہے۔
یقینی نہیں۔


بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی یہ صفات خاندانی عرف سے جانی جا سکتی ہیں۔
ویسے کنواری لڑکیوں میں یہ اوصاف بالعموم فطرتاً پائے جاتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2050