الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
20. باب الفرائض
20. فرائض (وراثت) کا بیان
حدیث نمبر: 816
وعن عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏الولاء لحمة كلحمة النسب لا يباع ولا يوهب» .‏‏‏‏ رواه الحاكم من طريق الشافعي عن محمد بن الحسن عن أبي يوسف وصححه ابن حبان وأعله البيهقي.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولاء کا تعلق نسب کے تعلق کی طرح ہے۔ جسے نہ فروخت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے۔ اسے حاکم نے بطریق شافعی محمد بن حسن سے اور انہوں نے ابویوسف سے روایت کیا ہے۔ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور بیہقی نے اسے معلول کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 816]
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم:4 /341 وسنده ضعيف، محمد بن الحسن الشيباني وأبويوسف القاضي ضعيفان، وابن حبان (الإحسان):7 /220، والبيهقي:10 /292، وللحديث شواهد كثيرة.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 816 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 816  
تخریج:
«أخرجه الحاكم:4 /341 وسنده ضعيف، محمد بن الحسن الشيباني وأبويوسف القاضي ضعيفان، وابن حبان (الإحسان):7 /220، والبيهقي:10 /292، وللحديث شواهد كثيرة.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ولا کو نسب کے تعلق سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے‘ نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ نذر کی جا سکتی ہے۔
2. عرب معاشرے میں لوگ اسے فروخت بھی کر دیتے تھے اور ہبہ اور نذر بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ممنوع قرار دے دیا۔
راویٔ حدیث:
«حضرت محمد بن حسن رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔
سلسلۂ نسب یوں ہے: محمد بن حسن بن فرقد شیبانی۔
احناف کے ایک مشہور و معروف امام ہیں۔
۱۳۲ ہجری میں واسط شہر میں پیدا ہوئے اور کوفہ میں نشوونما پا کر پروان چڑھے۔
علم حدیث حاصل کیا۔
بڑے بڑے علماء سے ملاقات کی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں کئی سال تک رہے‘ پھر امام ابویوسف رحمہ اللہ سے فقہ کا درس لیا۔
بہت سی نادر کتب تصنیف کیں اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علم کو خوب پھیلایا۔
یہ احناف کے تین علمی ستونوں میں سے ایک ہیں۔
تین سال تک امام مالک رحمہ اللہ سے علم حاصل کیا۔
امام شافعی رحمہ اللہ ان کی بابت فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن حسن کی طرح جسم میں فربہ اور خوش طبع کسی کو نہیں دیکھا اور نہ میں نے ان سے زیادہ کسی کو خیرخواہ پایا۔
حافظے کے اعتبار سے ان کو حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
۱۸۹ ہجری میں رَیّ کی برنبویہ نامی بستی میں وفات پائی۔
«امام ابویوسف رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ اس سے مراد امام علامہ قاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم انصاری کوفی ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد ہیں اور اہل عراق کے مستند فقیہ ہیں۔
ان کی نشوونما طلب علم ہی میں ہوئی۔
ان کے والد ایک غریب آدمی تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قاضی ابویوسف کو وقتاً فوقتاً سو‘ سو درہم دے کر ان کی اعانت کیا کرتے تھے۔
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اصحاب الرائے میں امام ابویوسف سے زیادہ احادیث کا علم رکھنے والا اور ان سے زیادہ فن میں پختہ کوئی دوسرا نہیں۔
اور یحییٰ بن یحییٰ تمیمی کا قول ہے کہ میں نے ابویوسف کو ان کی موت کے وقت یہ فرماتے سنا کہ میں نے اپنے تمام فتووں سے رجوع کیا سوائے ان کے جو کتاب و سنت سے موافقت رکھتے ہیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ سوائے ان فتووں کے جو قرآن کے موافق ہیں اور جن پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
ربیع الثانی ۱۸۲ہجری میں انہتر (۶۹) سال کی عمر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 816