الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
7. باب قضاء الحاجة
7. قضائے حاجت کے آداب کا بیان
حدیث نمبر: 81
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اتقوا اللعانين: الذي يتخلى في طريق الناس،‏‏‏‏ أو في ظلهم» .‏‏‏‏ رواه مسلم. وزاد أبو داود عن معاذ رضي الله عنه: «‏‏‏‏والموارد» ‏‏‏‏ ولفظه: «‏‏‏‏اتقوا الملاعن الثلاثة: البراز في الموارد،‏‏‏‏ وقارعة الطريق والظل» .‏‏‏‏ ولأحمد عن ابن عباس رضي الله عنهما: «أو نقع ماء» . وفيهما ضعف. وأخرج الطبراني النهي عن قضاء الحاجة تحت الأشجار المثمرة وضفة النهر الجاري،‏‏‏‏ من حديث ابن عمر بسند ضعيف.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے اجتناب کرو، ایک لوگوں کے راستہ میں۔ دوسرا (ان کے بیٹھنے آرام کرنے کی) سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرنے سے۔ (مسلم)
اور ابوداؤد نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے جو روایت کی ہے، اس میں اس طرح ہے کہ لعنت کے تین اسباب سے اجتناب کرو، گھاٹوں پر، شاہراہ عام پر اور سایہ کے نیچے رفع حاجت کرنے سے۔
اور امام احمد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے جو روایت بیان کی ہے اس میں ہے جہاں پانی جمع ہوتا ہو وہاں بھی رفع حاجت سے بچنا چاہیئے۔ یہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں۔
اور طبرانی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ پھل دار و سایہ دار درخت کے نیچے اور جاری و ساری نہر کے کنارے پر قضائے حاجت نہ کرے۔ اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الطهارة، باب النهي عن التخلي في الطرق والظلال، حديث:269* حديث معاذ عند أبي داود. الطهارة، حديث:26 وسنده ضغيف-وحديث ابن عباس عند أحمد:1 / 299 وفيه رجل مجهول، لم يسم فالسند ضعيف، وحديث ابن عمر أخرجه الطبراني في الأوسط:3 /199، 200، حديث: 2413وسنده ضعيف جدًا، فيه فرات بن السائب وهو متروك الحديث.»

   سنن أبي داوداتقوا الملاعن الثلاثة البراز في الموارد قارعة الطريق الظل
   سنن ابن ماجهاتقوا الملاعن الثلاث البراز في الموارد الظل قارعة الطريق
   بلوغ المرام‏‏‏‏اتقوا اللعانين: الذى يتخلى فى طريق الناس،‏‏‏‏ او فى ظلهم

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 81 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 81  
لغوی تشریح:
«اِتَّقُوْا» پرہیز کرو، اجتناب کرو۔
«لَاعِنَیْنِ» «لَاعِنٌ» سے تثنیہ ہے۔ اس کا مطلب ہے: ان دو امور سے اجتناب کرو جو لعنت کا سبب بنتے ہیں۔ اس کا بھی احتمال ہے کہ «لَاعِن» سے مراد صاحب لعن ہو۔ جیسے «صَاحِبُ اللَّبَن» کو «لَابِن» اور «صَاحِبُ التَّمر» کو «تَامِر» کہہ دیتے ہیں۔ (اسی کو فاعل ذی کذا کہتے ہیں)۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «لَاعِنٌ»، «مَلْعُوْنٌ» کے معنی میں ہے۔
«اَلَّذِي یَتَخَلّٰی» جو قضائے حاجت، یعنی پاخانہ کرتا ہے۔
«فِي طَرِیْقِ النَّاسِ» لوگوں کے عام آمد و رفت کے راستے میں۔ یہ لعنت کے اسباب میں سے ایک ہے۔ اور دوسرا «أَوْفِي ظِلِّھِمْ» وہ مقام اور جگہ جہاں لوگ سایہ حاصل کرتے ہوں، قیلولہ کے لیے استعمال میں لاتے ہوں، اپنے اترنے اور آرام کی خاطر بیٹھنے کے لیے استعمال کرتے ہوں۔ اس سے مطلق سایہ مراد نہیں ہے کیونکہ جس سائے کی لوگوں کو ضرورت نہ ہو وہاں قضائے حاجت میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔
«اَلْمَلَاعِنَ» «مَلْعَنٌ» کی جمع ہے۔ میم پر فتحہ ہے۔ ایسی جگہیں جو لعنت کا موجب ہوں۔
«اَلثَّلَاثَةُ» ملاعن کی صفت ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔
«اَلْبَرَاز» با پر فتحہ ہے۔ اور براز اصل میں کھلی اور وسیع جگہ کو کہتے ہیں، مگر یہ «اَلْغَائِط»، یعنی پیٹ سے بذریعہ مقعد خارج ہونے والے فضلے سے کنایہ ہے۔ اگر «اَلْبَرَاز» کو منصوب پڑھیں تو اس صورت میں «ملاعن» سے بدل ہو گا اور اگر اسے مرفوع پڑھیں تو پھر یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے۔
«فِي الْمَوَارِدِ» مورد کی جمع ہے۔ اس جگہ، چشمے یا نہر وغیرہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ پانی پینے یا پلانے یا وضو اور غسل وغیرہ کے لیے پانی لینے جاتے ہیں (جنہیں گھاٹ کہتے ہیں)۔
«قَارِعَةِ الطَّرِیقِ» ایسے کھلے راستے کو کہتے ہیں جہاں سے لوگ گزرتے ہوں اور اپنے جوتے، پاؤں اور سواریوں کے ذریعے سے اسے پامال کرتے ہوں۔
«أَوْ نَقْعِ مَاءٍ» نون پر فتحہ اور قاف ساکن ہے۔ جمع شدہ پانی یا پانی کے جمع ہونے کی جگہ۔
«فِیْھِمَا ضَعْفٌ» اس سے مراد ہے کہ سیدنا معاذ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی دونوں روایات ضعیف ہیں۔
◈ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت تو اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اس کو ابوسعید حمیری، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے، حالانکہ وہ ان کو ملا تک نہ تھا، لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔
◈ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت کے ضعیف ہونے کے دو سبب ہیں: ایک تو یہ کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ہے، جب اس کی کتابیں جل گئیں تو اس نے روایات کو خلط ملط کرنا شروع کردیا۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو راوی روایت کرتا ہے وہ مبہم ہے۔ اس کا نام نہیں لیا گیا۔
«تَحْتَ الْأَشْجَارِ الْمُثْمِرَةِ» پھل دار درختوں کے نیچے گندگی کرنے سے۔ یہ اس خطرے کی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ جو پھل پک کر نیچے گرے گا وہ گندگی سے ملوث ہو کر گندا ہو جائے گا اور کھانے اور استعمال کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ یہاں سے گزرنے والا نادانستگی میں اسے اٹھائے یا کسی اور ضرورت و حاجت کے لیے یہاں سے گزرے تو ان گندگیوں سے اذیت پائے گا۔
«ضَفَّةِ النَّھْرِ» ضاد پر فتحہ اور فا پر تشدید ہے۔ کنارے اور ساحل کو کہتے ہیں۔ اور اس کا سبب بھی وہی ہے کہ لوگ اس سے اذیت و تکلیف اٹھائیں گے۔
«بِسَنَدٍ ضَعِیْفٍ» اس کی سند میں فرات بن سائب متروک راوی ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی ضعیف ہے۔

فوائد ومسائل:
➊ صحیح مسلم کی روایت کے علاوہ دیگر روایات سنداً کمزور ہیں تاہم شواہد کی بنا پر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔
➋ ان احادیث میں قضائے حاجت کے آداب کی تعلیم دی گئی ہے۔
➌ پانچ مقامات اور جگہیں ایسی ہیں جہاں رفع حاجت کرنے کی ممانعت ہے اور وہ یہ ہیں: عام راستے پر، سایہ دار درخت کے نیچے، پانی کے گھاٹ پر، پھل دار درخت کے نیچے اور رواں دواں نہر کے کنارے پر۔ شارع عام پر رفع حاجت ممنوع ہے، البتہ جو راستہ متروک ہو چکا ہو، عام گزرگاہ نہ رہی ہو تو وہاں گنجائش ہے۔

راویٔ حدیث: (سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ) آپ انصاری صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے تعلق تھا، اس لیے خزرجی کہلائے۔ بڑے معزز اور بزرگ فقہائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر وغیرہ میں شریک ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا والی (گورنر) بنایا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بعد شام کا والی مقرر کیا۔ 17 ہجری میں طاعون عمواس میں اور ایک قول کے مطابق 18 ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 38 سال تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 81   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 26  
´لعنت والے کاموں`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعنت کی تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں، اور سائے میں پاخانہ پیشاب کرنے سے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 25]
فوائد و مسائل:
 یہ روایت سنداً ضعیف ہے، البتہ صحیح حدیث یہ ہے: دو لعنت والے کاموں سے بچو، ایک یہ کہ عام گزرگاہ میں پاخانہ کیا جائے، دوسرا یہ کہ لوگوں کی سائے والی جگہ میں یہ کام کیا جائے۔ [صحيح مسلم، حديث:269]
اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول و براز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 26   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث328  
´راستہ میں پیشاب و پاخانہ کرنا منع ہے۔`
ابوسعید حمیری بیان کرتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایسی احادیث بیان کرتے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے نہیں سنی ہوتی تھیں، چنانچہ جو حدیثیں سنی ہوئی ہوتیں ان کے بیان سے خاموش رہتے، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو ان کی یہ حالت اور بیان کردہ روایات پہنچیں تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے ہوئے نہیں سنا، قریب ہے کہ معاذ تم کو قضائے حاجت کے مسئلے میں فتنے میں مبتلا کر دیں، یہ خبر معاذ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ ان سے جا کر ملے اور کہا: اے عبداللہ بن عمرو! رسول اللہ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 328]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے، صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے لیکن اس میں دو مقامات سے ممانعت کا ذکر ہے، گھاٹ کا ذکر نہیں۔ دیکھیے (صحیح مسلم، الطھارة، باب النھی عن التخلی فی الطرق والظلال، حدیث: 269)
علاوہ ازیں شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے، اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول وبراز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:  (الأرواء، حدیث: 62)

(2)
گھاٹ سے مراد دریا یا تالاب وغیرہ کا کنارہ ہےجہاں سے پانی لینے کے لیے یا دوسرے مقاصد کے لیے عام لوگوں کی آمدرفت ہو۔

(3)
سائے سے مراد وہ سایہ ہے جہاں گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لیے لوگ ٹھرتے ہوں یہاں پاخانہ کرنے سے عام لوگوں کو تکلیف ہوگی اور وہ اس سائے سے فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
اگر کوئی درخت ایسی جگہ اگا ہوا ہو جہاں عام لوگوں کو آنے جانے کی ضرورت نہیں پرتی تو اس کے سائے میں قضائے حاجت کی گنجائش ہے جیسے کہ حدیث: 339، 338)
)
میں ذکر ہوگا۔

(3)
راستے کے درمیان مراد یہ ہے کہ عین راستے میں قضائے حاجت نہ کی جائے۔
جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو۔
ہاں راستے سے ایک طرف ہٹ کر جہاں سے لوگ نہیں گزرتے فراغت حاصل کی جاسکتی ہے-
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 328