الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
5. باب السلم والقرض، والرهن.
5. پیشگی ادائیگی، قرض اور رھن کا بیان
حدیث نمبر: 720
وعن عبد الرحمن بن أبزى وعبد الله بن أبي أوفى رضي الله تعالى عنهما قالا: كنا نصيب المغانم مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وكان يأتينا أنباط من أنباط الشام فنسلفهم في الحنطة والشعير والزبيب. وفي رواية: والزيت إلى أجل مسمى قيل: أكان لهم زرع؟ قالا: ما كنا نسألهم عن ذلك. رواه البخاري.
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابزی اور عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوات میں شرکت کر کے) غنیمت کا حصہ لیتے تھے اور ملک شام کے نبطی جاٹوں میں سے کچھ جاٹ ہمارے پاس آئے تھے۔ ہم ان کو گندم، جو اور منقی، اور ایک روایت میں زیتون بھی ہے، کی پیشگی دے کر ایک مدت مقررہ تک بیع سلم کرتے تھے۔ پوچھا گیا کہ وہ خود کھیتی باڑی کرتے تھے تو دونوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان سے یہ کبھی دریافت نہیں کیا تھا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 720]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، السلم، باب السّلم إلي أجلٍ معلومٍ، حديث:2254، 2255.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 720 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 720  
تخریج:
«أخرجه البخاري، السلم، باب السّلم إلي أجلٍ معلومٍ، حديث:2254، 2255.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیع سلم کرتے وقت جنس موجود نہ بھی ہو پھر بھی بیع درست ہے‘ البتہ بیچی اور خریدی جانے والی چیز کی مقدار‘ نوعیت‘ مطلوبہ چیز کی ادائیگی اور وصولی کا وقت اور دوسرے ایسے معاملات کا پہلے سے تعین کر لیا جائے جن میں اختلاف ہونے کا خطرہ ہے۔
2. ائمہ میں سے امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ کی رائے یہی ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک معاہدے کے آغاز سے لے کر اختتام معاہدہ تک وہ چیز دستیاب رہے‘ اس دوران میں کسی موقع پر اس کا فقدان نہ ہو اور ملنا دشوار و محال نہ ہو‘ تاہم پہلے ائمہ کی رائے زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر ایسی شرط ضروری ہوتی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ضرور ان سے پوچھ لیتے کہ یہ چیز اب سے لے کر وقت ادائیگی تک بازار میں دستیاب رہے گی؟ واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ أبزیٰ کے ہمزہ پر فتحہ‘ با ساکن اور زا پر فتحہ ہے۔
قبیلۂ خزاعہ میں سے تھے۔
صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔
قبیلۂخزاعہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔
کوفہ میں سکونت اختیار کی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انھیں خراسان پر عامل مقرر فرمایا۔
کوفہ میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 720