تخریج: «أخرجه البخاري، السلم، باب السّلم إلي أجلٍ معلومٍ، حديث:2254، 2255.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیع سلم کرتے وقت جنس موجود نہ بھی ہو پھر بھی بیع درست ہے‘ البتہ بیچی اور خریدی جانے والی چیز کی مقدار‘ نوعیت‘ مطلوبہ چیز کی ادائیگی اور وصولی کا وقت اور دوسرے ایسے معاملات کا پہلے سے تعین کر لیا جائے جن میں اختلاف ہونے کا خطرہ ہے۔
2. ائمہ میں سے امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ کی رائے یہی ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک معاہدے کے آغاز سے لے کر اختتام معاہدہ تک وہ چیز دستیاب رہے‘ اس دوران میں کسی موقع پر اس کا فقدان نہ ہو اور ملنا دشوار و محال نہ ہو‘ تاہم پہلے ائمہ کی رائے زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر ایسی شرط ضروری ہوتی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ضرور ان سے پوچھ لیتے کہ یہ چیز اب سے لے کر وقت ادائیگی تک بازار میں دستیاب رہے گی؟ واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث: «حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ» أبزیٰ کے
”ہمزہ
“ پر فتحہ‘
”با
“ ساکن اور
”زا
“ پر فتحہ ہے۔
قبیلۂ خزاعہ میں سے تھے۔
صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔
قبیلۂخزاعہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔
کوفہ میں سکونت اختیار کی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انھیں خراسان پر عامل مقرر فرمایا۔
کوفہ میں وفات پائی۔