تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في بيع الثمار قبل أن يبدو صلاحها، حديث:3371، والترمذي، البيوع، حديث:1228، وابن ماجه، التجارات، حديث:2217، وأحمد:3 /221، وابن حبان (الإحسان):7 /231 /حديث:4972، والحاكم:2 /19، حميد الطويل مدلس وعنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۲ /۳۷‘ والإرواء للألباني‘ رقم: ۱۳۶۴. ۱۳۶۶) 2.گندم وغیرہ کے دانے بالیوں میں نرم و نازک ہوتے ہیں‘ پھر آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے‘ نیز یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کھیت میں کتنی پیداوار ہو گی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے‘ اس سے قبل نہیں۔
لیکن پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت وغیرہ آ جاتی ہے جس سے فصل تباہ ہو جاتی ہے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت واپس کر دے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص باغ کا پھل وغیرہ فروخت کرے‘ پھر اس پر آفت آ جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ اپنے بھائی کے مال سے کچھ نہ لے‘ یعنی اس کی قیمت وصول نہ کرے۔
آپ نے فرمایا:
”وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس وجہ سے لیتا ہے؟
“ (صحیح مسلم‘ المساقاۃ‘ باب وضع الجوائح‘ حدیث:۱۵۵۴) نیز اگلی روایت سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
بنابریں ان احادیث کی رو سے فروخت کرنے والے کے لیے آفت آنے کے بعد فصل کی قیمت اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔