الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
1. باب شروطه وما نهي عنه منه
1. بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام
حدیث نمبر: 655
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا وقعت الفأرة في السمن،‏‏‏‏ فإن كان جامدا فألقوها وما حولها،‏‏‏‏ وإن كان مائعا،‏‏‏‏ فلا تقربوه» رواه آحمد وأبو داود،‏‏‏‏ وقد حكم عليه البخاري وأبو حاتم بالوهم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب چوہا گھی میں گر جائے، اگر گھی منجمد ہو تو اس چوہے کو اور اس کے اردگرد کے گھی کو باہر پھینک دو اور اگر گھی سیال ہو تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ بخاری اور ابوحاتم نے اس پر وہم کا حکم لگایا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 655]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في الفأرة تقع في السمن، حديث:3842، وأحمد:2 /232، 265، 490. * الزهري مدلس وعنعن، و معمر خالفه الثقات فيه.»

   سنن أبي داودوقعت الفأرة في السمن فإن كان جامدا فألقوها وما حولها وإن كان مائعا فلا تقربوه
   بلوغ المرام إذا وقعت الفأرة في السمن ،‏‏‏‏ فإن كان جامدا فألقوها وما حولها ،‏‏‏‏ وإن كان مائعا ،‏‏‏‏ فلا تقربوه

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 655 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 655  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في الفأرة تقع في السمن، حديث:3842، وأحمد:2 /232، 265، 490. * الزهري مدلس وعنعن، و معمر خالفه الثقات فيه.»
تشریح:
1.مذکورہ حدیث میں متاثرہ گھی کو باہر پھینکنے اور اس کے قریب نہ پھٹکنے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ نجس چکنائی (گھی‘ تیل) سے انتفاع مطلقاً جائز نہیں۔
لیکن پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انتفاع کا باب‘ بیع کے باب سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
تمام دلائل میں تطبیق یوں ہے کہ یہ ممانعت صرف انسان کے کھانے اور بطور تیل استعمال کرنے پر محمول ہے۔
جب اس کا کھانا اور بطور تیل استعمال کرنا درست نہیں تو اسے فروخت کر کے اس کی قیمت کھانا بالاولیٰ حرام ہے۔
2. جامد اور مائع کا فرق اس لیے ہے کہ جامد میں تمیز ہو سکتی ہے کہ چوہا کتنے حصے کو لگا ہے۔
جبکہ مائع میں اس کا امکان نہیں کہ کس اور کتنے حصے سے چوہے کا بدن لگا ہے۔
3. امام بخاری اور ابوحاتم رحمہما اللہ نے اس پر وہم کا حکم لگایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث میمونہ کی مسند ہے‘ مسندابی ہریرہ نہیں ہے‘ لہٰذا اس پر وہم کا حکم سند کے اعتبار سے ہے متن کے اعتبار سے نہیں۔
4. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس کی بابت لکھتے ہیں «مَتْنُ الْحَدِیثِ صَحِیحٌ» مذکورہ حدیث کا متن صحیح ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد وغیرہ کی بناپر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۱۲ /۱۰۱. ۱۰۳)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 655