وعنه رضي الله عنه قال: لم أر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يستلم من البيت غير الركنين اليمانيين. رواه مسلم.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی اس کے راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے دونوں یمانی رکنوں کے بیت اللہ کے کسی رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 615]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب استحباب استلام الركنين اليمنانيين في الطواف، حديث:1269.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 615
615 لغوی تشریح: «يستلم» یعنی ہاتھ سے چھوتے۔ یہ ہر طواف میں مسنون ہے۔ «غير الركنين اليمانيين»”نون“ کے بعد والی ”یا“ کا مخفف ہے اور اسے کبھی کبھی تشدید سے بھی پڑھا گیا ہے۔ یمن کی جانب منسوب ہے۔ چونکہ یمن کی طرف ان کا رخ ہے، اس لئے انہیں رکن یمانی کہتے ہیں۔ اور «ركن البيت» سے مراد اس کے ایک جانب ہے۔ ان دونوں رکنوں اور کونوں سے مراد حجر اسود والا کونا اور بیت اللہ کا جنوب مغربی کونا ہے۔ ان دونوں کا استلام اس وجہ سے ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیادوں پرقائم ہیں۔ اور «ركنين شاميين»، یعنی ملک شام کی جانب والے کونوں کی یہ حیثیت نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 615
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 858
´بیت اللہ کے دوسرے کونوں کو چھوڑ کر صرف حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کا بیان۔` ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی الله عنہما کے ساتھ تھا، معاویہ رضی الله عنہ جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے، اس کا استلام کرتے ۱؎ تو ابن عباس نے ان سے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہیں کیا، اس پر معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 858]
اردو حاشہ: 1؎: خانہ کعبہ چار رکنوں پر مشتمل ہے، پہلے رکن کو دو فضیلتیں حاصل ہیں، ایک یہ کہ اس میں حجر اسود نصب ہے دوسرے یہ کہ قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور دوسرے رکن کو صرف دوسری فضیلت حاصل ہے یعنی وہ بھی قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور رکن شامی اور رکن عراقی کو ان دونوں فضیلتوں میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں، یہ دونوں قواعد ابراہیمی پر قائم نہیں اس لیے پہلے کی تقبیل (بوسہ) ہے اور دوسرے کا صرف استلام (چھونا) ہے اورباقی دونوں کی نہ تقبیل ہے نہ استلام، یہی جمہور کی رائے ہے، اور بعض لوگ رکن یمانی کی تقبیل کو بھی مستحب کہتے ہیں، جو ممنوع نہیں ہے۔
2؎: معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کا جواب امام شافعی نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ان رکن شامی اور رکن عراقی دونوں کا استلام نہ کر نا انہیں چھوڑنا نہیں ہے حاجی ان کا طواف کر رہا ہے انھیں چھوڑ نہیں رہا، بلکہ یہ فعلاً اور ترکاً دونوں اعتبار سے سنت کی اتباع ہے، اگر ان دونوں کا استلام نہ کرنا انھیں چھوڑنا ہے تو ارکان کے درمیان جو جگہیں ہیں ان کا استلام نہ کرنا بھی انہیں چھوڑنا ہوا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 858
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3066
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو رکن یمانی کے سوا کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3066]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حجر اسود اور رکن یمانی کو (تَغْلِیْباً رُکْنَانِ یَمَانِیَانِ) کہ دیا جاتا ہے، چونکہ یہ دونوں ابراہیمی بنیادوں پر ہیں اس لیے ان کا ا ستلام کیا جاتا ہے اور حجر اسود کو دوہری فضیلت حاصل ہے اس لیے اس کو صرف ہاتھ ہیں نہیں لگایا جاتا بلکہ بالاتفاق اس کو بوسہ دینا مسنون ہے۔ اگرچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چاروں کونوں کا استلام کرتے تھے لیکن ائمہ میں سے کسی نےاس کو قبول نہیں کیا۔