وعن أبي بن عمارة رضي الله عنه أنه قال: يا رسول الله أمسح على الخفين؟ قال: «نعم» قال: يوما؟ قال: «نعم» قال: ويومين؟ قال: «نعم» قال: وثلاثة أيام؟ قال: «نعم، وما شئت» . أخرجه أبو داود، وقال: ليس بالقوي.
سیدنا ابی بن عمارۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں موزوں پر مسح کر سکتا ہوں؟ فرمایا ”ہاں کر سکتے ہو“ عرض کیا ایک دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں ایک دن“ عرض کیا دو دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں دو دن“ میں نے عرض کیا تین دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں تین دن اور جب تک تیری مرضی ہو۔“ ابوداؤد نے اسے روایت کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 61]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب التوقيت في المسح، حديث: 158، وقال الدار قطني: "هذا الإسناد لا يثبت... وعبدالرحمن و محمد بن يزيد و أيوب بن قطن مجهولون كلهم".»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 61
� فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث کو اس کے ضعیف ہونے کی بنا پر اور صحیح و حسن احادیث، جو مدت کی تعیین کرتی ہیں، کے خلاف واقع ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا گیا۔ ➋ اس حدیث کی سند صحیح نہیں جبکہ وہ احادیث صحیح ہیں جن میں مسافر کے لیے تین دن، تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ ➌ صحیح اور قوی حدیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ➍ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح المھذب میں اس حدیث کے ضعیف ہونے پر ائمہ حدیث کا اتفاق نقل کیا ہے۔ ➎ امام أحمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کے رجال غیر معروف ہیں اور ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوع گردانا ہے۔
راوی حدیث: SR ابی بن عمارہ رضی اللہ عنہ ER ”ہمزہ“ کے ضمہ، ”با“ کے فتحہ اور ”یا“ کی تشدید کے ساتھ ہے۔ عمارہ ”عین“ کے کسرہ کے ساتھ ہے اور کبھی کبھی اسے ”عین“ مضموم کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ مدنی انصاری مشہور صحابی ہیں۔ مصر میں سکونت پذیر ہوئے۔ ابن حبان کا قول ہے کہ یہ وہ صحابی ہیں جنہیں دو قبلوں (بیت المقدس اور بیت اللہ) کی جانب رخ کر کے نماز پڑھنے کا شرف و فضل حاصل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 61
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 158
´مسح کی ابتدا حدث کے بعد پہلے مسح سے شمار کی جائے گی` «. . . عَنْ أُبَيِّ بْنِ عِمَارَةَ، قَالَ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَكَانَ قَدْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْقِبْلَتَيْنِ: أَنَّهُ قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ،أَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ . . .» ”. . . ابی بن عمارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، یحییٰ بن ایوب کا بیان ہے کہ ابی بن عمارہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں قبلوں (بیت المقدس اور بیت اللہ) کی طرف نماز پڑھی ہے - آپ نے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا میں موزوں پر مسح کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 158]
فوائد و مسائل: ➊ مقیم اپنے موزوں پر ایک دن رات اور مسافر تین دن تین رات تک مسح کر سکتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود حدیث [157] میں ہے۔ ➋ مسح کی ابتداء «حدث» کے بعد پہلے مسح سے شمار کی جائے گی۔ ➌ ابی بن عمارہ رضی اللہ عنہ والی روایت جس میں تین دن سے زیادہ کا ذکر ہے، ضعیف ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہ اللہ رحمها اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ [عون المعبود] شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تضعیف کی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 158
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث557
´موزوں پر مسح کے لیے مدت کی حد نہ ہونے کا بیان۔` ابی بن عمارہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں دونوں قبلوں کی جانب نماز پڑھی تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا میں موزوں پر مسح کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: ایک دن تک؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: دو دن تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: تین دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، یہاں تک کہ سات تک پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جب تک تمہارا دل چاہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 557]
اردو حاشہ: یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے تاہم اگلے ایک اثر صحابہ میں بہ وقت ضرورت تین دن سے زیادہ مسح کرنے کا جواز ملتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 557