الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2033
2033. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ میں آپ کے لیے خیمہ لگانے کا اہتمام کرتی تھی۔ آپ صبح کی نماز پڑھتے، پھر اس میں داخل ہو جاتے۔ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے خیمہ لگانے کی اجازت مانگی تو انھوں نے اجازت دے دی اور حضرت حفصہ ؓ نے بھی وہاں اپنا خیمہ لگا لیا۔ جب اسے حضرت زینب ؓ نے دیکھا تو انھوں نے وہاں ایک اور خیمہ نصب کرلیا۔ جب صبح ہوئی نبی ﷺ نے وہاں کئی خیمے دیکھے تو فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ آپ کو جب صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ” کیا تم اس سے نیکی کا ارادہ کرتے ہو؟“ آپ نے اس مہینے کا اعتکاف ترک کردیا، پھر شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2033]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؓ نے اس حدیث سے عورتوں کے لیے اعتکاف کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے اعتکاف کا اہتمام بھی مسجد میں ہونا چاہیے کیونکہ اگر گھر میں اعتکاف جائز ہوتا تو آپ انہیں اپنے اپنے گھروں میں اعتکاف کرنے کا حکم دے دیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس رمضان اعتکاف کا پروگرام ہی ختم کر دیا حتی کہ شوال میں اس کی قضا دی اور دس دنوں کا اعتکاف کیا۔
(2)
عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
٭ عورتوں کے لیے مردوں سے بایں طور الگ انتظام ہو کہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا قطعاً کوئی امکان باقی نہ رہے کیونکہ اختلاط مرد و زن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے پسند نہیں کیا۔
٭ خاوند یا سرپرست سے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت حاصل کی جائے بصورت دیگر اعتکاف صحیح نہیں ہو گا بلکہ بلا اجازت اعتکاف سے ثواب کے بجائے گناہ کا اندیشہ ہے۔
٭ بحالت اعتکاف مخصوص ایام کے آ جانے کا بھی اندیشہ نہ ہو۔
ہر عورت کو اپنی عادت کا علم ہوتا ہے، اسے اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ہو گا۔
٭ کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔
بصورت دیگر وہ اپنے گھر میں عبادت کرنے کا اہتمام کرے لیکن گھر میں عبادت کرنا شرعی اعتکاف نہیں۔
٭ خورد و نوش اور دیگر لوازمات زندگی کا باقاعدہ انتظام ہوتا کہ باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
مرد حضرات تو بوقت ضرورت مسجد سے باہر جا سکتے ہیں لیکن عورتوں کے لیے ایسی اجازت فتنے کا باعث ہے۔
٭ جو عورتیں اعتکاف کریں انہیں تفریح طبع کے سامان سے اجتناب کرنا ہو گا، اسی طرح اپنے ہمراہ موبائل رکھنا جس سے گھر والوں سے ہر وقت رابطہ رہے، اعتکاف کے منافی ہے۔
(3)
بعض حضرات اس حدیث سے عورتوں کے لیے سنت اعتکاف غیر مشروع ہونے کا مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اعتکاف سے منع کر دیا تھا، حالانکہ منع کرنے کی درج ذیل وجوہات تھیں:
٭ آپ کو خدشہ لاحق ہوا کہ یہ سوکنوں کی باہمی غیرت کی وجہ سے ایسا کر رہی ہیں۔
اس طرح ریاکاری سے مقصد اعتکاف ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔
٭ اعتکاف میں تنہائی مقصود ہوتی ہے، جب ازواج مطہرات نے وہاں خیمے گاڑ لیے تو گھر والی صورت حال ہو گئی، اس لیے آپ نے انہیں منع کر دیا۔
یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ان کی دیکھا دیکھی باقی ازواج مطہرات بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے نصب کر لیں گی جس سے جگہ تنگ ہو جائے گی اور نمازیوں کو تکلیف ہو گی، اس لیے انہیں منع فرما دیا۔
(فتح الباري: 351/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2033
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2034
2034. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ اعتکاف کا ارادہ فرمایا۔ جب آپ اس جگہ پہنچے جہاں اعتکاف کرنا چاہتے تھے تو وہاں چند خیمے دیکھے یعنی وہ حضرت عائشہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ، اور حضرت زینب ؓ کے خیمے تھے۔ آپ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: ” کیا ان میں نیکی کہتے ہو؟“ پھر آپ وہاں سے واپس آگئے اور اعتکاف نہ کیا یہاں تک کہ ماہ شوال میں دس دن اعتکاف میں گزارے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2034]
حدیث حاشیہ:
(1)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں چار خیمے دیکھے:
ایک آپ کے لیے تھا اور تین ازواج مطہرات حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب ؓ کے تھے۔
چونکہ خیموں کا اہتمام حضرت عائشہ ؓ کے ذمے تھا، اس لیے حضرت حفصہ ؓ نے ان سے باضابطہ اجازت طلب کی لیکن حضرت زینب ؓ نے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہ کی اور انہوں نے از خود خیمہ نصب کر لیا، غالباً رسول اللہ ﷺ کے انکار کی وجہ بھی یہی تھی۔
آپ نے تمام خیمے اکھاڑ دینے کا حکم دیا۔
بہرحال اس حدیث سے اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمے لگانے کا جواز معلوم ہوا۔
امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے۔
(فتح الباري: 350/4) (2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتکاف کی صرف نیت کرنے سے اعتکاف واجب نہیں ہو جاتا، البتہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ شوال میں اس کی قضا بطور استحباب کی ہے کیونکہ آپ جس عمل کو شروع کرتے اس پر دوام کرتے تھے، لیکن ازواج مطہرات کے متعلق کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ انہوں نے بھی ماہ شوال میں اعتکاف کیا ہو۔
(فتح الباري: 352/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2034
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2041
2041. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے اجازت طلب کی کہ وہ اعتکاف کریں۔ جب آپ نے انھیں اجازت دی تو انھوں نے مسجد میں خیمہ لگالیا۔ حضرت حفصہ ؓ نےسنا تو انھوں نے بھی خیمہ نصب کرلیا۔ حضرت زینب ؓ نے سنا تو انھوں نے ایک اور خیمہ لگالیا۔ جب رسول اللہ ﷺ اگلے روز گئے تو وہاں پر چارخیمے دیکھے، آپ نے فرمایا: ”یہ کیا بات ہے؟“ تو آپ کو ان کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس پر انھیں کس چیز نے ابھارا ہے؟کیا وہ نیکی چاہتی ہیں؟ان تمام خیموں کو اکھاڑ دو۔ میں انھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔“ چنانچہ وہ تمام خیمے ختم کردیے گئے۔ پھر آپ نےرمضان میں اعتکاف نہ کیا حتیٰ کہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2041]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا جبکہ مذکورہ حدیث میں شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ذکر ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے:
ان میں کوئی تعارض نہیں، آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف ختم کیا۔
(فتح الباري: 351/4)
لیکن ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے عشرے میں اعتکاف ہو تو وہ تیسرے عشرے میں کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے کہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔
(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2464) (2)
معتکف کو چاہیے کہ وہ 20 رمضان کی شام کو مسجد میں پہنچ جائے اور رات مسجد میں گزارے، اگلے روز نماز فجر سے فراغت کے بعد جائے اعتکاف میں داخل ہو جائے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2025)
اور آخری عشرہ بیسویں رمضان کو مغرب کے بعد شروع ہو جاتا ہے، نیز حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر ادا کر کے جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔
(جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 791)
مذکورہ حدیث بخاری میں بھی ہے:
”جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔
“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2041
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2045
2045. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دفعہ) رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ذکر فرمایا۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے (اعتکاف کرنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ وہ اسے بھی اجازت لے دیں تو انھیں بھی اجازت مل گئی۔ جب حضرت زینب ؓ بنت جحش نے یہ دیکھا تو انھوں نے خیمہ لگانے کا حکم دیا، چنانچہ ان کاخیمہ بھی نصب کردیا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے بعداپنے معتکف کی طرف تشریف لائے اور وہاں کئی ایک خیمے دیکھے تو فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: یہ حضرت عائشہ ؓ حضرت حفصہ ؓ اورحضرت زینب ؓ کے خیمے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کیا وہ اس نیکی کاارادہ کرتی ہیں؟ میں(اس سال) اعتکاف نہیں کروں گا۔“ چنانچہ آپ واپس لوٹ آئے۔ جب روزے ختم ہوئے تو آپ نے شوال کے ایک عشرے [صحيح بخاري، حديث نمبر:2045]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف گاہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنا ارادہ ملتوی کر دیا تھا۔
اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ اعتکاف گاہ میں داخل ہوئے، پھر آپ نے اعتکاف کا ارادہ ترک فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی نیت کر لینے سے وہ چیز واجب نہیں ہو جاتی۔
چونکہ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جو کام شروع کرتے اس پر دوام فرماتے، اس لیے آپ نے ماہ شوال میں دس دن اعتکاف کر کے اس کی تلافی فرمائی، بصورت دیگر صرف نیت کر لینے سے وہ اعتکاف آپ پر واجب نہیں ہوا تھا جس کی بعد میں قضا دینی ضروری ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو اپنے خیمے اکھاڑ دینے کا حکم دیا، اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2045