الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصيام
روزے کے مسائل
2. باب صوم التطوع وما نهي عن صومه
2. نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے
حدیث نمبر: 566
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم نهى عن صوم يوم عرفة بعرفة. رواه الخمسة غير الترمذي وصححه ابن خزيمة والحاكم واستنكره العقيلي.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے ترمذی کے علاوہ باقی پانچوں نے روایت کیا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصيام/حدیث: 566]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصوم، باب في صوم يوم عرفة بعرفة، حديث:2440، والنسائي، مناسك الحج، حديث:3007، وابن ماجه، الصيام، حديث:1732، وأحمد:2 /304، والحاكم:1 /434، وابن خزيمة:3 /292، حديث:2101،۔»

   سنن أبي داودصوم يوم عرفة بعرفة
   سنن ابن ماجهعن صوم يوم عرفة بعرفات
   بلوغ المرامنهى عن صوم يوم عرفة بعرفة

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 566 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 566  
566 فوائد و مسائل:
➊ اسے امام عقیلی رحمہ اللہ نے منکر اس لیے کہا ہے کہ اس کے راوی حوشب بن عقیل نے یہ حدیث مہدی بن حرب ہجری سے روایت کی ہے۔ عقیلی نے کہا ہے کہ حوشب کی کسی نے بھی متابعت نہیں کی۔ اور اس سے بیان کرنے والا راوی بھی مختلف فیہ ہے۔ مگر یہ اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ حوشب کو اکثر محدثین رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ بھی تقریب التھذیب میں یہی ہے کہ وہ ثقہ ہے، البتہ مہدی ہجری کے بارے میں امام ابن معین نے کہا ہے کہ میں اسے جانتا۔ لیکن امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص الستدرک میں ان کی تائید کی ہے۔ اور اسے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقبول کہا ہے۔ اور اس سے بیان کرنے والا راوی حوشب بن عبدل ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التھذیب میں ثقہ کہا ہے۔
➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عرفات میں حاجی کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ امام یحییٰ بن سعید انصاری کا یہی موقف ہے۔ اس کی تائید سنن نسائی، وغیرہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے: یوم عرفہ ہماری عید کا دن ہے۔ یعنی اہل عرفہ کے لیے یہ دن کا ہے۔ [سنن النسائي الحج، باب النهي عن صوم، يوم عرفة، حديث: 3007]
اس لیے انہیں اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت ہے، البتہ جمہور کے نزدیک روزہ نہ رکھنا مستحب ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجتہ الوداع کے موقع پر یوم عرفہ کا روزہ نہیں رکھا تھا۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 566   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2440  
´عرفہ کے دن عرفات میں روزے کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزے سے منع فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2440]
فوائد ومسائل:
(1) ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو، جس دن وقوف عرفات ہوتا ہے، یوم عرفہ کہتے ہیں۔

(2) یہ حدیث ضعیف ہے۔
اس لیے اس سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔
البتہ چونکہ حجاج کو عرفات کا وقوف اور اس اثنا میں دعا و مناجات میں مشغول رہنا ہوتا ہے، اس لیے ان کے لیے یہ عمل روزے کی نسبت اولیٰ ہے۔
غیر حاجی کے لیے اس روزے کی فضیلت ثابت ہے جو پیچھے بیان ہو چکی ہے۔
(حدیث:2425)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2440   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1732  
´عرفہ کے دن کا روزہ۔`
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے گھر ملنے گیا تو ان سے عرفات میں عرفہ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1732]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں یوم عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت ثابت ہو رہی ہے لیکن یہ حجاج کرام کے ساتھ خاص ہے کہ آپ نے حا جیوں کو اس دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے جیسے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا تھا۔ (صحیح البخاري، الصوم، باب صوم یوم عرفة، حدیث: 1988)
 نیز حجاج کو عرفات کا وقوف اور اس اثنا میں دعا و مناجات میں مشغول رہنا ہوتا ہے اس لئے یہ عمل روزے کی نسبت اولیٰ ہے غیر حاجی کے لئے اس روزے کی فضیلت گزشتہ احادیث سے ثابت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1732