وعن عائشة وأم سلمة رضي الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يصبح جنبا من جماع ثم يغتسل ويصوم. متفق عليه، وزاد مسلم في حديث أم سلمة:" ولا يقضي".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جماع سے جنبی ہوتے تو صبح ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور روزہ رکھتے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ زائد کیا کہ قضاء نہیں دیتے تھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصيام/حدیث: 550]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصوم، باب الصائم يصبح جنبًا، حديث:1925، 1926، ومسلم، الصيام، باب صحة صوم من طلع عليه الفجر وهو جنب، حديث:1109.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 550
فائدہ 550: مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی آدمی پر غسل سے پہلے صبح ہو جائے تو روزہ درست ہے۔ جمھور اسی کے قائل ہیں بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور اس کے معارض مسند امام احمد وغیرہ میں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی پر حالتِ جنابت میں صبح ہو جائے تو روزہ نہ رکھے، اس کے بارے میں جمھور نے کہا ہے کہ وہ منسوخ ہے اور خود ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنے کے قائل تھے) نے جب یہ حدیث سنی تو انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔ [سبل السلام وغیرہ ]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 550
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:200
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 200
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1925
1925. حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1925]
حدیث حاشیہ: ابوہریرہ ؓ نے فضل کی حدیث سن کر اس کے خلاف فتوی دیا تھا۔ مروان کا یہ مطلب تھا کہ عبدالرحمن ان کو پریشان کریں لیکن عبدالرحمن نے یہ منظور نہ کیا اور خاموش رہے پھر موقع پاکر ابوہریرہ ؓ سے اس مسئلہ کو ذکر کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ نے عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی حدیث سن کر کہا کہ وہ خوب جانتی ہیں گویا اپنے فتوی سے رجوع کیا۔ (وحیدی) علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً علماءکا امراءکے ہاں جاکر علمی مذاکرات کرنا، منقولات میں اگر ذرا بھی شک ہو جائے تو اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم کی طرف رجوع کرکے اس سے امر حق معلوم کرنا، ایسے امور جن پر عورتوں کو بہ نسبت مردوں کے زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے، کی بابت عورتوں کی روایات کو مردوں کی مرویات پر ترجیح دینا، اسی طرح بالعکس جن امور پر مردوں کو زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے ان کے لیے مردوں کی روایات کو عورتوں کی مرویات پر ترجیح دینا، بہرحال ہر امر میں آنحضرت ﷺ کی اقتداءکرنا، جب تک اس امر کے متعلق خصوصیت نبوی نہ ثابت ہو اور یہ کہ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور خبر واحد مرد سے مروی ہو یا عورت سے اس کا حجت ہونا، یہ جملہ فوائد اس حدیث سے نکلتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حق کا اعتراف فرما کر اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1925
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1926
1926. حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1926]
حدیث حاشیہ: ابوہریرہ ؓ نے فضل کی حدیث سن کر اس کے خلاف فتوی دیا تھا۔ مروان کا یہ مطلب تھا کہ عبدالرحمن ان کو پریشان کریں لیکن عبدالرحمن نے یہ منظور نہ کیا اور خاموش رہے پھر موقع پاکر ابوہریرہ ؓ سے اس مسئلہ کو ذکر کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ نے عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی حدیث سن کر کہا کہ وہ خوب جانتی ہیں گویا اپنے فتوی سے رجوع کیا۔ (وحیدی) علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً علماءکا امراءکے ہاں جاکر علمی مذاکرات کرنا، منقولات میں اگر ذرا بھی شک ہو جائے تو اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم کی طرف رجوع کرکے اس سے امر حق معلوم کرنا، ایسے امور جن پر عورتوں کو بہ نسبت مردوں کے زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے، کی بابت عورتوں کی روایات کو مردوں کی مرویات پر ترجیح دینا، اسی طرح بالعکس جن امور پر مردوں کو زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے ان کے لیے مردوں کی روایات کو عورتوں کی مرویات پر ترجیح دینا، بہرحال ہر امر میں آنحضرت ﷺ کی اقتداءکرنا، جب تک اس امر کے متعلق خصوصیت نبوی نہ ثابت ہو اور یہ کہ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور خبر واحد مرد سے مروی ہو یا عورت سے اس کا حجت ہونا، یہ جملہ فوائد اس حدیث سے نکلتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حق کا اعتراف فرما کر اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1926
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1925
1925. حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1925]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔ ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا: بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا: وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔ میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2589(1109)(2) حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔ پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔ اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔ اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري: 190/4)(4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔ ٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔ ٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔ ٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔ ٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔ ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري: 190/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1925
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1926
1926. حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1926]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔ ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا: بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا: وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔ میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2589(1109)(2) حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔ پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔ اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔ اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري: 190/4)(4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔ ٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔ ٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔ ٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔ ٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔ ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري: 190/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1926