وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «تسحروا فإن في السحور بركة» متفق عليه.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سحری کھایا کرو اس لئے کہ اس میں بڑی برکت ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصيام/حدیث: 535]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصوم، باب بركة السحور من غير إيجاب، حديث:1922، 1923، ومسلم، الصيام، باب فضل السحور وتأكيد استحبابه....،حديث:1095.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 535
لغوی تشریح 535: أَلسَّحُور ”سین“ پر فتحہ کی صورت میں وہ کھانا مراد ہے جو طلوعِ فجر سے پہلے کھایا جائے اور اگر اس پر ضمہ ہو تو پھر یہ مصدر ہو گا اور اس سے مراد کھانے کا عمل ہو گا۔
فوائد و مسائل 535: ➊ اس حدیث میں سحری کھانے کھانے کی ترغیب ہے۔ ➋ یہود و نصاریٰ چونکہ سحری کا اہتمام نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کی مخالفت کی گئی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزے میں فرق سحری کھانے کا ہے۔“ برکت کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کھانا کھانے کا ثواب ملتا ہے کیونکہ یہ ایک مسنون عمل ہے اور اس سے روزے کی تکمیل میں آسانی رہتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس وقت کھائے جانے والے کھانے میں واقعتًا ایک خاص برکت ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کا تعلق سنت نبوی سے ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 535
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1692
´سحری کھانے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1692]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) المسحور کا لفظ سین کی زبر سے بھی پڑھا گیا ہے اور پیش سے بھی۔ سین کی زبر سے سحور کا مطلب وہ طعام ہے جو روزہ شروع کرنے سے پہلے کھایا جاتا ہے اورسحور (سین کی پیش سے) کھانے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ حدیث کامطلب یہ ہے کہ اس وقت کھانا کھانا باعث برکت ہے۔ اس کا ثواب بھی ملتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک مسنون عمل ہے۔ اور اس سے روزے کی تکمیل میں آسانی بھی ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس وقت کھائے جانے والے کھانے میں ایک خاص برکت ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کا تعلق سنت نبوی ﷺ سے ہے۔ اور اس کی وجہ سے غیر مسلمو ں کی مشا بہت سے بچاؤ بھی ہو جا تا ہے کیو نکہ یہود و نصاری سحری نہیں کھا تے دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور وتاکید استحبابه واستحباب تاخیرہ، حدیث: 1096، 1095)
(2) ثوا ب کا تعلق مشقت سے نہیں احکا م شریعت کی پا بندی سے ہے سنت کے مطا بق تھو ڑ اور آسان عمل سے بہتر ہے جو سنت نبوی کے خلا ف ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1692
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 708
´سحری کھانے کی فضیلت کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کھاؤ ۱؎، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 708]
اردو حاشہ: 1؎: امر کا صیغہ ندب و استحباب کے لیے ہے سحری کھانے سے آدمی پورے دن اپنے اندر طاقت و توانائی محسوس کرتا ہے اس کے برعکس جو سحری نہیں کھاتا اسے جلدی بھوک پیاس ستانے لگتی ہے۔
2؎: اس سے معلوم ہوا کہ سحری کھانا اس امّت کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 708
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2549
امام صاحب مختلف سندوں سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2549]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اسلام اعتدال وتوسط اور درمیانہ روی کا نام ہے۔ اس لیے آپ نے سحری کھانے کی ترغیب دی اور یہ بھی کہ سحری آخری وقت میں کی جائے اور افطار غروب کے ساتھ ہی کر دیا جائے۔ تاکہ بھوکا پیاسا رہنے کا وقت بلاضرورت طویل نہ ہو، اور سحری کھانے سے انسان کی قوت کار اور توانائی میں زیادہ کمزوری پیدا نہ ہو سحری کے لیے اٹھے تاکہ اسے کچھ نہ کچھ یاد الٰہی کا موقع بھی مل سکے اور صبح کی نماز میں بھی شریک ہو سکے اس کے برخلاف اگر سحری نہ کھائی جائے گی۔ تو سحر خیزی نہ ہو سکے گی اللہ تعالیٰ کی یاد سے بھی انسان محروم رہے گا۔ اور کھانے پینے سے محرومی کی بنا پر جلد ہی بھوک پیاس ستائے گی اور انسان کی قوت کار اور طاقت عمل متاثر ہو گی۔ بھوک وپیاس کا وقفہ طویل ہونے کی وجہ سے روزہ دارتکلیف میں مبتلا ہو گا۔ اس سے قریب قریب حالت اس صورت میں ہو گی جب انسان سحری بہت جلد کھا کر سو جائےگا، نیز اسی صورت میں نماز باجماعت سے محرومی کا بھی اندیشہ ہے اس لیے آپﷺ نے فرمایا: ”سحری کھانا باعث برکت ہے“ یعنی اس سے محروم رہنا، برکت سے محرومی کا باعث ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2549
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1923
1923. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1923]
حدیث حاشیہ: سحری کھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہودیوں کے ہاں سحری کھانے کا چلن نہیں ہے، پس ان کی مخالفت میں سحری کھانی چاہئے، اور اس سے روزہ پورا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے، سحری میں چند کھجور اور پانی کے گھونٹ بھی کافی ہیں اور جو اللہ میسر کرے۔ بہرحال سحری چھوڑنا سنت کے خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1923
1923. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1923]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا سحری سے متعلق امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے، چنانچہ تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے، واجب نہیں کیونکہ امر اس وقت وجوب کے لیے ہوتا ہے جب اس میں وجوب کے خلاف کوئی قرینہ نہ پایا جائے لیکن یہاں اس کے خلاف قرینہ موجود ہے کہ آپ نے اور آپ کے صحابہ نے وصال فرمایا ہے۔ اگر سحری واجب ہوتی تو وصال ثابت نہ ہوتا۔ (عمدةالقاري: 68/8)(2) سحری میں برکت کے کئی پہلو ہیں: سنت کی اتباع، مخالفت اہل کتاب، عبادت کے لیے طاقت کا باعث اور اللہ کے اجروثواب کا ذریعہ۔ (فتح الباري: 179/4) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سحری باعث برکت ہے اسے مت ترک کرو اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔ “(مسندأحمد: 44/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1923