وعن أبي إسحاق أن عبد الله بن يزيد رضي الله عنه أدخل الميت من قبل رجلي القبر وقال: هذا من السنة. أخرجه أبو داود.
ابواسحٰق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا کہ سنت طریقہ یہی ہے۔ (ابوداؤد)[بلوغ المرام/كتاب الجنائز/حدیث: 465]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجنائز، باب في الميت يدخل من قبل رجليه، حديث:3211.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 465
لغوی تشریح: «مَنْ قِبَلِ رَجْلَيِ الْقَبْرِ» ] یعنی اس جانب سے جہاں میت کے پاؤں ہوتے ہیں۔ یہ حال کا اطلاق محل پر ہے، یعنی حال بول کر محل مراد لیا ہے۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ میت کو قبر میں پاؤں کی جانب سے اتارنا چاہیے۔ اہل حجاز میں اسی پر عمل تھا اور اسی کو امام شافعی رحمہ الله اور امام احمد رحمہ الله نے اختیار کیا ہے اور یہی افضل ہے کیونکہ کوئی صحیح روایت اس کے برعکس ثابت نہیں۔
راوی حدیث: [حضرت ابواسحاق رحمہ الله ] عمرو بن عبداللہ سبیعی ہمدانی کوفی مشہور تابعی ہیں۔ آپ سے بکثرت روایات مروی ہیں مگر تدلیس کرتے تھے۔ آخر عمر میں ذہنی توازن بگڑ گیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابھی دو سال باقی تھے کہ ان کی پیدائش ہوئی۔ ۱۲۹ ہجری میں فوت ہوئے۔ [حضرت عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ ] خطمی انصاری۔ قبیلہ اوس سے تھے۔ جس وقت صلح حدیبیہ میں حاضر ہوئے اس وقت ان کی عمر سترہ برس تھی۔ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ کوفہ میں آئے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کوفہ کے والی تھے۔ اسی دور میں کوفہ کے مقام پر فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 465
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3211
´میت کو کیسے (کس طرف سے) قبر میں اتارا جائے؟` ابواسحاق کہتے ہیں کہ حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز (نماز جنازہ) عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں، تو انہوں نے ان کی نماز پڑھائی اور انہیں قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور کہا: یہ مسنون طریقہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3211]
فوائد ومسائل: صحابی کا کسی عمل کو سنت کہنے سے رسول اللہ ﷺ کی سنت مراد ہوتی ہے اور اسے اصطلاحا مرفوع حکمی کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3211