وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» .أخرجه أحمد وأبو داود وابن ماجه بإسناد ضعيف. والترمذي عن سعيد بن زيد و أبي سعيد نحوه. و قال أحمد: لا يثبت فيه شئ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”وضو کا آغاز کرتے وقت جس نے پہلے «بسم الله» نہ پڑھی اس کا کوئی وضو نہیں۔“ اس حدیث کو احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے مگر ان کی بیان کردہ سند ضعیف ہے، اور ترمذی نے یہ حدیث سعید بن زید سے روایت کی ہے اور اسی طرح اسے ابوسعید سے بھی روایت کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 46]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في التسمية علي الوضوء، حديث:101، وأحمد:2 / 418، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 399، وسند ابن ماجه، حديث: 397 حسن وبه حسنت الحديث، والترمذي، الطهارة، حديث:25، 26 وهو حديث ثابت والحمد لله.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 46
� فوائد و مسائل: ➊ «لَا وُضُوءَ» یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «بِسم الله» کا پڑھنا وضو کے لئے رکن یا شرط ہے کیونکہ ظاہر عبارت سے کمال کی نفی نہیں بلکہ صحت اور وجود کی نفی مراد ہے جیسا کہ لائے نفی جنس سے یہی مراد ہوتا ہے۔ لیکن امام احمد رحمه الله اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں، البتہ اس کے مختلف طرق اور کثیر شواہد کی بنا پر حافظ ابن صلاح، ابن کثیر اور علامہ عراقی رحمها الله وغیرہ نے اسے حسن کہا ہے۔ عصر حاضر کے عظیم محقق علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہٰذا اسے پڑھنا سنت ہے، اس لیے ہر وضو کرنے والے کو وضو کی ابتدا میں «بسم الله» پڑھ لینی چاہئے۔ ➋ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔ داود ظاہری کے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جس نے عمداً بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا اور یہی بات راجح ہے۔
راویٔ حدیث: SR سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ ER سعید بن زید بن عمرو بن نفیل العدوی القرشی ہیں۔ ان کی کنیت ابوالاعور ہے۔ ان دس خوش قسمت ترین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جنہیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ان کی زوجیت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں آنے کا ذریعہ اور سبب یہی خاوند بیوی بنے۔ معرکہ بدر کے علاوہ باقی تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ 51 ہجری میں وفات پائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 46
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 101
´بسم الله کے علاوہ الفاظ سے وضو کی ابتدا کرنا درست نہیں` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله تعالى عليه . . .» ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں «بسم الله» نہیں کہا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 101]
فوائد و مسائل: ➊ وضو کے شروع میں «بسم الله» کہنا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ” «بسم الله» کہتے ہوئے وضو کرو۔“[سنن النسائي، الطهارة، حديث: 78] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ «بسم الله» کے علاوہ الفاظ سے وضو کی ابتداء کرنا درست نہیں ہے۔ جو حضرات «بسم الله» کے سوا کوئی دوسرے الفاظ کہنے کو درست خیال کرتے ہیں تو یہ بلا دلیل اور مذکورہ حدیث کے خلاف ہے۔ ➋ اگر «بسم الله» بھول گئی اور وضو کے دوران میں یاد آئی تو فوراً پڑھ لے، تاہم وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بھول چوک معاف ہے۔ ➌ وضو اور غسل میں نیت بھی لازم ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 101