فوائد و مسائل: اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دلیل نمبر 1: سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«ان رجلا يصلي خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة .» ” ایک آدمی نے اکیلے صف کے پیچھے نماز ادا کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم فرمایا۔
“ [جامع الترمذي: 230، سنن أبى داود: 682، سنن ابن ماجه: 1004، مسند الإمام أحمد: 228/4، مسند الدارمي: 815/2، ح: 1322، وسنده صحيح] * اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے
”حسن
“جبکہ امام ابن جارود
[319] اور امام ابن حبان
[الموارد: 405] رحمہ اللہ نے
”صحیح
“ کہا ہے۔
* امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد ثبت هذا الحديث احمد واسحاق» ” اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
“ [الاوسط فى السنن والاجماع والاختلاف لابن المنذر:184/4] دلیل نمبر 2: سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانصرف، فراى رجلا يصلي فردا خلف الصف، فوقف نبي الله صلى الله عليه وسلم حتي انصرف الرجل من صلاته، فقال له: ”استقبل صلاتك، فلا لفرد خلف الصف“» ” آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نماز سے فارغ ہونے تک اس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ پھر
(جب اس نے سلام پھیرا تو) اس سے فرمایا: اپنی نماز نئے سرے سے پڑھو، کیونکہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے شخص کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔
“ [مسند الامام احمد: 23/4، ح:24293، سنن ابن ماجه: 1003، و سندهٔ حسن] * امام اثرم، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
” یہ حدیث حسن ہے۔
“ [التلخيصں الحبير: 37/2] * امام ابن خزیمہ
[1569] اور * امام ابن حبان
[2206] رحمها اللہ نے اس حدیث کو
” صحیح
“ کہا ہے جبکہ:
* حافظ نووی رحمہ اللہ نے
[خلاصه الاحكام:2517] اس کی سند کو
” حسن
“ قرار دیا ہے۔
* بوصیری لکھتے ہیں:
«اسنادۂ صحيح، رجاله ثقات» ” اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
“ [مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجه للبوصيري: 122/1] صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز ائمہ دین کی نظر میں ➊ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ، امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ
(م: 196ھ) سے نقل کرتے ہیں:
«يدخل فى الصف، أو يخرج إليه رجلا من الصف، فيقوم معه.» ” وہ
(صف کے پیچھے اکیلا رہنے والا اگر جگہ ہو تو) صف میں داخل ہو جائے ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور
(پچھلی صف میں) اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔
“ [مسند على بن الجعد: 112 و سندهٔ صحيح] ➋ حماد بن ابی سلیمان تابعی
(م:120ھ) کہتے ہیں:
«يعيد الصلاة.» ” ایسا شخص نماز دوبارہ پڑھے۔
“ [ايضا:113، وسندہ صحيح] ➌ ➍ امام احمد بن حنبل
(م:241 ھ) اور امام اسحاق بن راہویہ
(م:238ھ) رحمها اللہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اسے نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔
“ [جامع الترمذي، تحت الحديث: 230، و سندهٔ صحيح] ➎ امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ
(م:197ھ) فرماتے ہیں:
«إذا صلى الرجل خلف الصف وحده، فإنه يعيد.» ” جب کوئی آدمی صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے تو وہ نماز نئے سرے سے پڑھے۔
“ [أيضا، تحت الحديث: 231، و سندهٔ صحيح] ➏ امام ابن منذر رحمہ اللہ
(م:218ھ) فرماتے ہیں:
«صلاة الفرد خلف الصفت باطل، لثبوت خبر وابصة وخبر على بن الجعد بن شيبان.» ”صف کے پیچھے اکیلے کی نماز فاسد ہے کیونکہ اس بارے میں سیدنا وابصہ اور سیدنا علی بن جعد بن شیبان کی بیان کردہ احادیث پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہیں۔
“ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر: 184/4] ➐ امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی رحمہ اللہ
(181-255ھ) سیدنا وابصہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«أقول به.» ” میں اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں۔
“ [مسند الدارمي: 816/2، ح: 1323] ➑ امام ابن حزم رحمہ اللہ
(م:456ھ) اس بارے بحث کے بعد فرماتے ہیں:
«فبطل أن يكون لمن أجاز صلاة المنفرد خلف الصف، وصلاة من لم يقم الصفوف، حجة أصلا، لا من قرآن ولا من سنة ولا إجماع، وبقولنا يقول السلف الطيب.» ” اس بحث سے ثابت ہو گیا ہے کہ جو شخص صف کے پیچھے اکیلے آدمی اور صف کو قائم نہ رکھنے والے کی نماز کو درست قرار دیتا ہے، اس کے پاس قرآن و سنت اور اجماع سے بالکل کوئی بھی دلیل نہیں۔
“ [المحلى لابن حزم: 58/4، رقم المسئلة: 415] ➒ امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ
(م:311 ھ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں:
«باب الزجر عن صلاة المأموم خلف الصف وحده.» ” صف کے پیچھے اکیلے آدمی کو نماز پڑھنے سے منع کرنے کا بیان۔
“ نیز فرماتے ہیں:
«إن صلاته خلف الصف وحده غير جائزة، يجب عليه استقبالها.» ” یقیناً صف کے پیچھے اکیلے آدمی کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اسے دوبارہ ادا کرے۔
“ [صحيح ابن خزيمة: 30/3] مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ مذکورہ دلائل کے برعکس بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام پیش کیا جا چکا ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«صليت أنا ويتيم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم حلفنا .»
” میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی) تھیں۔“ [صحيح البخاري: ۰727 صحيح مسلم: 658]
تجزیہ: اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ اجازت عورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں:
«باب: المرأة وحدها تكون صفا.» ” اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو تو صف شمار ہوتی ہے۔
“ اگر مرد بھی اکیلا صف شمار ہو سکتا ہے تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا؟ نیز مرد و عورت دونوں پر نماز باجماعت کے لیے امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«سؤوا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة» ” صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔
“ [صحيح البخاري:723، صحيح مسلم: 433] اب اکیلی عورت کا صف ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا جبکہ اکیلے مرد کی صف نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں۔ لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ یوں اس حدیث سے مرد کے لیے اجازت ثابت نہیں ہوتی۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
«أن تقوم خلف الصف وحدها، جاز صلاة المصلي خلف الصف وحده، وهذا الاحتجاج عندي غلط، لأن سنة المرأة أن تقوم خلف الصف وحدها إذا لم تكن معها امرأة أخرى، وغير جائز لها أن تقوم بحذاء الإمام ولا فى الصف مع الرجال، والمأموم من الرجال إن كان واحدا، فسنته أن يقوم عن يمين إمامه، وإن كانوا جماعة قاموا فى صف خلف الإمام حتى يكمل الصفك الأول، ولم يجز للرجل أن يقوم خلف الإمام والمأموم واحد، ولا خلاف بين أهل العلم أن هذا الفعل لو فعله فاعل، فقام خلف إمام، ومأموم قد قام عن يمينه، خلاف سنة النبى صلى الله عليه وسلم.» ” سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت کو اپنی دلیل بنانے والوں کو کہنا ہے کہ جب عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے تو مرد کے لیے بھی ایسا جائز ہے۔ لیکن یہ بات میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ اکیلی ہو تو صف کے پیچھے کھڑی ہو، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ مرد مقتدی جب اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے۔ اکیلا مقتدی ہو تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔
“ [صحیح ابن خزیمة:3 / 30] امام ابن حزم رحمہ اللہ
(384-456 ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة لهم فيه، لأن هذا حكم النساء خلف الرجال، وإلا فعليهن من إقامة الصفوف إذا كثرن ما على الرجال لعموم الأمر بذلك، ولا يجوز أن يترك حديث مصلى المرأة المذكورة لحديث وابصة، ولا حديث وابصة لحديث مصلي المرأة.» ” اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں تو مردوں کے پیچھے
(اکیلی) عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، ورنہ جب وہ زیادہ ہوں تو عام حکم کی بنا پر ان کے لیے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورت کی نماز کے بارے میں مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔
“ [المحلي لابن حزم: 57/4] معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
دلیل نمبر 2: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
«فقام يصلي من الليل، فقمت عن يساره، فتناولني من خلف ظهره، فجعلني على يمينه.»
” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے مجھے میرے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔“ [صحيح البخاري:699 صحيح مسلم: 1801]
اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ منقول ہے۔ [صحيح مسلم: 3010]
محل استشہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابہ کو پکڑ کر اپنے پیچھے سے دائیں جانب لانا ہے اور وجہ استشہاد یہ ہے کہ جب دونوں صحابہ کو پیچھے لایا گیا تو وہ «خلف الصف» یعنی صف کے پیچھے ہو گئے تھے۔ ان کی نماز ایسا کرنے سے باطل نہیں ہوئی، لہٰذا صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہے۔
تجزیہ: اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کے جائز ہونے کا استدلال درست نہیں کیونکہ سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم نے صف کے پیچھے نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں صحابہ نے صف کے پیچھے سے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے نماز کا کچھ حصہ ادا کیا تھا تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مرد اپنی پوری نماز ہی صف کے پیچھے اکیلا اداکر لے بلکہ زیادہ سے زیادہ مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کو عمومی طور پر کالعدم قرار دیا ہے، اس سے یہ جگہ تبدیل کرنے کی مجبوری والی صورت خاص دلیل کی بنا پر خارج ہو جائے گی۔ صف میں نماز پڑھنے والے شخص کو صف تبدیل کرتے ہوئے اپنی صف کے پیچھے ہونے والی نماز دہرانی نہیں پڑے گی جبکہ باہر سے آ کر جماعت کے ساتھ ملنے والا شخص اگر صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے گا تو اسے ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل کی بنا پر نماز دہرانی پڑے گی کیونکہ فرمان رسول یہی ہے۔ یوں سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة فيه لهم، لما ذكرنا من أنه لا يحل ضرب السنن بعضها ببعض، وهذا تلاعب بالدين، وليت شعري ما الفرق بين من ترك حديث جابر وابن عباس الحديث وابصة وعلي بن شيبان، وبين من ترك حديث وابصة وعلي الحديث جابر وابن عباس، وهل هذا كله إلا باطل بحت، وتحكم بلا برهان، بل الحق فى ذلك الاخذ بكل ذلك، فكله حق، ولا يحل خلافه» ” اس حدیث میں ان کے لیے کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ احادیث کی ایک دوسرے سے ٹکر دینا جائز ہیں۔ یہ تو دین کے ساتھ مذاق اور تمسخر ہے۔ وابصہ اور علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو چھوڑ دینے والے اور جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر وابصہ و علی بن شیبان رضی اللہ عنہم کی روایت کو چھوڑ دینے والے اس کام میں برابر ہیں۔ یہ سب صورتیں بالکل باطل ہیں اور بلا دلیل فتوے ہیں۔ اس سلسلے میں حق یہ ہے کہ ساری احادیث پر عمل کیا جائے، یہ ساری حق ہیں، ان کی مخالفت جائز نہیں۔
“ [المحلي لابن حزم: 57/4] نیز لکھتے ہیں:
«وما سمي قط المدار عن شمال إلٰي يمين مصليا و حدهٔ خلف الصف.» ” بائیں سے دائیں جانب گھمائے جانے والے شخص کو کبھی بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں دیا گیا۔
“ دلیل نمبر 3: سیدنا ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«إنه انتهى إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: زادك الله حرضا ولا تعد.»
” وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے صف کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا (پھر چلتے چلتے صف میں مل گئے)، پھر اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری حرص کو مزید بڑھائے لیکن آئندہ ایسا مت کرنا۔“ [صحيح البخاري: 783]
تجزیہ: اس روایت سے بھی ویسا ہی باطل استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ سابقہ روایت سے کیا گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ روایت کے ذریعے امام کی بائیں جانب سے دائیں جانب آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا ثابت کرنے کی سعی کی گئی تھی اور اس روایت کے ذریعے رکوع کی حالت میں چل کر آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ بالکل واضح بات ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کی حالت میں دیکھ کر فوراً تعمیل کے جذبے کے تحت پچھلی صف سے ہی رکوع کی ہیئت میں منتقل ہو گئے اور پھر چل کر اگلی میں شامل ہو گئے، یعنی ان کا یہ چلنا صف میں شامل ہونے کے لیے تھا، نہ کہ اکیلے نماز پڑھنے کے لیے۔
اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی تو پھر بھی اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آئندہ کے لیے اس کام سے منع بھی فرما دیا تھا، یعنی اب بقول رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں:
«وهذا الخبر حجة عليهم لنا . . . . . فقد ثبت أن الركوع دون الصف، ثم دخول الصفت كذلك لا يحل .» ” یہ حدیث تو ان لوگوں کے خلاف ہماری ہی دلیل بنتی ہے۔۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صف کے پیچھے رکوع کر کے صف میں شامل ہونا بھی جائز نہیں
(چہ جائیکہ ایک دو رکعات یا پوری نماز ادا کرنا)۔
“ [المحلى لابن حزم: 58,57/4] اب رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ کام جائز نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا جس میں انہوں نے رکوع صف کے پیچھے ہی کر لیا تھا؟ تو معترض پہلے یہ ثابت کرے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت اٹھ کر نہیں پڑھی تھی۔
عدم ذکر، عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا۔ ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل میں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز دوہرانے کا صریح حکم ثابت ہے۔ صریح کو چھوڑ کر مبہم کو دلیل بنانا انصاف نہیں۔
صحابہ و تابعین سے منسوب غیر ثابت اقوال صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز کو جائز قرار دینے والے لوگ صحابہ و تابعین کی طرف منسوب بعض غیرثابت فتوے بھی ذکر کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
* سیدنا حدیفہ رضی اللہ عنہ سے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: وہ نماز نہ دوہرائے۔ [مصنف ابن أبى شيبة:12/2]
تبصرہ: لیکن اس روایت کی سند کئی وجہ سے سخت
”ضعیف
“ ہے:
(1) ابومعاویہ محمد بن خازم ضریر راوی
”مدلس
“ ہے۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
(2) جویبر بن سعید ازدی راوی سخت
”ضعیف
“ اور
”متروک
“ ہے۔
(3) ضحاک بن مزاحم کا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
* امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے یہ فتویٰ منسوب ہے:
” ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی۔“ [مصنف ابن أبى شيبة:193/2]
تبصرہ: لیکن اس کی سند بھی سخت
”ضعیف
“ ہے کیونکہ:
(1) حفص بن غیاث
”مدلس
“ ہے۔
(2) اشعث بن سوار نامی راوی
”ضعیف
“ ہے۔
(3) اگر عمرو سے مراد عمرو بن عبید ہے تو وہ
”متروک
“ راوی ہے۔
* امام حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں اسی طرح کی ایک اور راویت بھی ہے۔ [ایضاً]
تبصرہ: لیکن اس کی سند بھی یونس بن عبید کی تدلیس کی وجہ سے
”ضعیف
“ ہے۔
معلوم ہوا کہ صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے کچھ ثابت نہیں۔
رہی امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات کہ ایسے شخص کی نماز ہو جاتی ہے۔
تو ان کی دلیل وہی سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس کے مطابق ان کی والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی۔ مجوزین کی پہلی دلیل چونکہ یہی تھی لہٰذا اس بارے میں مکمل بحث اسی کے ضمن میں ہو چکی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس حدیث سے خاص عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس سے مردوں کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے کاجواز نکالنا درست نہیں۔
اگر پہلی صف مکمل ہو تو؟ سیدنا وابصہ بن معبد اور سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی حدیث بہت واضح ہے کہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے نمازی کی کوئی بھی نماز نہیں ہوتی اور اگر کوئی ایسا کر لے تو اس کے لیے اپنی اس طرح پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ بعض لوگ بغیر دلیل کے ان عام احادیث کو خاص کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پہلی صف میں جگہ نہ ہو تو پھر صف کے پیچھے اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہی تو بعض لوگ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز قبول نہ ہونے والی عام حدیث سے مقتدی اور مدرک رکوع کو بغیر دلیل مستثنیٰ کر لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جب حدیث میں عموم ہے تو ایک خاص صورت کو بغیر دلیل کے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔
صف کے پیچھے اکیلا آنے والا کیا کرے؟ اگر کوئی شخص نماز باجماعت کے لیے مسجد میں آئے اور صف مکمل ہو چکی ہو، صف کے پیچھے وہ اکیلا ہی ہو تو اس کے لیے دو صورتیں ہیں:
(1) وہ اگلی صف سے ایک آدمی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے۔ اس کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی یہ حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں مجھے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر پچھلی صف میں کر دیا۔
[صحيح مسلم: 3010] ائمہ دین بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ، امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ
(م: 196ھ) سے نقل کرتے ہیں:
«يدخل في الصف، او يخرج اليه رجلا من الصف، فيقوم معه» ” وہ
(صف کے پیچھے اکیلا رہنے والا اگر جگہ ہو تو اگلی) صف میں داخل ہو جائے، ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور
(پچھلی میں) اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔
“ [مسند علي بن الجعد: 112، وسنده صحيح] اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پیچھے آنے والے اکیلے شخص کے لیے نئی صف بنانے کی خاطر اگلی صف سے آدمی کو پیچھے کیا جا سکتا ہے اور ایک صف بنانے کے لیے اتنی حرکت بھی جائز ہے۔ اگر کوئی شخص پہلی صف سے آدمی کھینچنے کے عمل کو توڑنا شمار کرے اور صف توڑنے کی وعیدیں اس پر منطبق کرتے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ کسی عذر کی بنا پر کسی شخص کا صف سے نکلنا صف توڑنے میں شمار نہیں ہوتا، مثلاً اگر کوئی شخص نماز میں بے وضو ہو جائے تو بھلا وہ صف سے نکل کر نہیں جائے گا؟ اگر جائے گا اور یقیناً جائے گا تو کیا اس کا یہ عمل صف توڑنا شمار ہو گا؟ اور کیا اس طرح پہلی صف ناقص ہو جائے گی؟ قطعاً نہیں۔ لہٰذا بعض لوگوں کا اس موقف کے خلاف یہ حدیث پیش کرنا درست نہیں کہ:
«من وصل صفا، وصله الله، ومن قطع صفا، قطعه الله» ” جو شخص صف کو ملاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔
“ [مسند الامام احمد: 5724، سنن ابي داود:666، وسنده صحيح] کیونکہ اس حدیث کا تعلق بغیر عذر کے صف کو خراب کرنے والے شخص سے ہے، صحیح احادیث کی روشنی میں اگلی صف سے ایک آدمی کھینچنے کر صف بنانے والے شخص سے نہیں۔
(2) اگر پیچھے آنے والا شخص کسی بنا پر اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچنا نہیں چاہتا یا کسی وجہ سے کھینچ نہیں پاتا تو وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک کوئی مزید نمازی نہ آ جائے۔ اگر اسی انتظار میں جماعت نکل جانے کا خطرہ ہو تو صف کے پیچھے اکیلا نماز نہ پڑھے کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا بہرحال جائز نہیں کیونکہ انتظار کرتے رہنے سے تو ایک مجبوری کی بنا پر صرف جماعت ضائع ہو گی لیکن اگر اس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ لی تو سرے سے نماز ہی ضائع ہو جائے گی۔ ایسے شخص کے لیے نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہو گا۔