الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
10. باب صلاة الجماعة والإمامة
10. نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 325
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا أم أحدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف وذا الحاجة فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء» . متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کے فرائض انجام دے تو اسے قرآت میں تخفیف کرنی چاہیئے۔ اس لئے کہ مقتدیوں میں بچے، بوڑھے، کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں جب تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 325]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا صلي لنفسه فليطول ما شاء، حديث:703، واللفظ مركب، ومسلم، الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، حديث:467.»

   صحيح البخاريإذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن منهم الضعيف والسقيم والكبير وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء
   صحيح مسلمإذا ما قام أحدكم للناس فليخفف الصلاة فإن فيهم الكبير وفيهم الضعيف وإذا قام وحده فليطل صلاته ما شاء
   صحيح مسلمإذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن في الناس الضعيف والسقيم وذا الحاجة
   صحيح مسلمإذا أم أحدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف والمريض فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء
   جامع الترمذيإذا أم أحدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف والمريض فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء
   سنن أبي داودإذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن فيهم السقيم والشيخ الكبير وذا الحاجة
   سنن أبي داودإذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن فيهم الضعيف والسقيم والكبير وإذا صلى لنفسه فليطول ما شاء
   سنن النسائى الصغرىإذا صلى أحدكم بالناس فليخفف فإن فيهم السقيم والضعيف والكبير فإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمإذا صلى احدكم بالناس فليخفف فإن فيهم السقيم والضعيف والكبير وإذا صلى لنفسه فليطول ما شاء
   بلوغ المرام إذا أم أحدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف وذا الحاجة فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء
   مسندالحميدييؤم الناس فيخفف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 325 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 325  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا صلي لنفسه فليطول ما شاء، حديث:703، واللفظ مركب، ومسلم، الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، حديث:467.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی جب فریضہ ٔ امامت ادا کر رہا ہو تو اس وقت نماز میں لمبی قراء ت سے احتیاط کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ جماعت میں ہر قسم کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔
سب کی ضروریات و حاجات پیش نظر رکھنی چاہییں‘ البتہ جب آدمی اکیلا نماز پڑھتا ہے تو اسے اپنے اشغال‘ ضروریات اور حالات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔
تو ایسا آدمی فرصت اور قوت کے مطابق جتنی چاہے لمبی قراء ت کرے اسے اختیار ہے‘ مگر بیماری اور ضرورت کے وقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا کسی صورت میں بھی درست اور جائز نہیں۔
شریعت نے نفس کا بھی حق رکھا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 325   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 93  
´امام کو بیمار اور بوڑھے لوگوں کاخیال رکھنا چاہئیے`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اس میں تخفیف کرے کیونکہ لوگوں میں بیمار، کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلے نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 93]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 703، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ امام کو چاہئے کہ مسنون قرأت کے علاوہ عام فرض نمازوں میں لمبی قرأت نہ کرے۔
➋ مقتدیوں کا خیال رکھنا مسنون ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (نماز میں) تخفیف کا حکم دیتے اور ہمیں سورۂ صافات کی قرأت کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے۔ [السنن المجتبيٰ للنسائي 2/95 ح827 وسنده حسن وصححه ابن خزيمه: 1606]
● تخفیف سے مراد یہ نہیں ہے کہ رکوع وسجود ادھورے کئے جائیں بلکہ تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ مختصر اور مسنون نماز ادا کی جائے۔
➍ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ کے بندوں کے دلوں میں اللہ کی نفرت پیدا نہ کرو۔ پوچھا گیا: یہ کیسے ہے؟ فرمایا: ایک آدمی لوگوں کا امام بن کر اتنی لمبی نماز پڑھائے کہ لوگ بغض کرنے لگیں اور لوگوں کی نصیحت کے لئے تقریر کرنے بیٹھے تو اتنی لمبی تقریر کرے کہ لوگ بغض کرنے لگیں۔ [التمهيد 19/11، طبع جديده ج4 ص264 وسنده حسن]
● معلوم ہوا کہ ساری ساری رات تقریریں یا بہت لمبی تقریریں کرنا اچھا کام نہیں ہے۔ تقریر ہو یا نماز دونوں صورتوں میں لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
➎ نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں ایک نماز میں ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے کھڑا ہوگیا، میرے ساتھ کوئی دوسرا نہیں تھا پھر انہوں نے مجھے اپنے برابر کردیا۔ [الموطأ 1/134 ح300 وسنده صحيح]
➏ ایک آدمی کے باپ کا علم نہیں تھا کہ کون ہے تو اسے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے امامت سے ہٹا دیا تھا۔ دیکھئے الموطأ [1/134 ح301 وهو صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 326   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 795  
´نماز ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں بیمار، بڑے بوڑھے، اور حاجت مند لوگ (بھی) ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 795]
795۔ اردو حاشیہ:
نماز ہلکی اور مختصر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ قرأت مختصر اور اذکار تسبیحات کی تعداد مناسب حد تک کم ہو، اہم شرط یہ ہے کہ ارکان میں اعتدال و اطمینان ہو، عدم اعتدال سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 795   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 236  
´جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو نماز ہلکی پڑھائے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیئے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، کمزور اور بیمار سبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 236]
اردو حاشہ:
1؎:
ہلکی نماز پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان و سکون اور خشوع و خضوع اور اعتدال نہ ہو،
تعدیل ارکان فرض ہے،
نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہلکی نماز پڑھاتے تھے تب بھی کامل نماز پڑھاتے حتی کہ مغرب میں بھی سورہ طور یا سورہ المرسلات پڑھتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 236   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1017  
1017-اسماعیل بن ابوخالد اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں۔ میں مدینہ منورہ آیا میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا ان کے اور میرے موالی کے درمیان قرابت کا رشتہ تھا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور مختصر نماز پڑھاتے تھے۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھایا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ مختصر نماز پڑھایا کرتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1017]
فائدہ:
اس سے ثابت ہوا کہ امام کو نماز ہلکی پڑھانی چاہیے، اس پر پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1016   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:703  
703. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب وہ خود اکیلا پڑھے تو جس قدر چاہے طوالت کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:703]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازی اپنی الگ نماز (فرض یا نفل)
کوجتنا چاہے طول دے سکتا ہے، لیکن جب امام ہو کر نماز پڑھائے تو مقتدی حضرات کا خیال رکھے، یعنی وہ قراءت کو طول نہ دے اور رکوع وسجود میں بھی اس کا خیال رکھے۔
نماز تراویح میں بھی یہ اصول پیش نظر ہونا چاہیے۔
جو حفاظ نماز تراویح میں اس قدر زیادہ قراءت کریں کہ مقتدیوں پر شاق ہو، انھیں چاہیے کہ وہ اس ہدایت نبوی کو سامنے رکھیں۔
اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ نماز کو اتنا طویل نہ کرے کہ دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے، کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
انسان کی کوتاہی میں سے ہے کہ وہ نماز کو اتنی دیر سے پڑھے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حديث: 562 (681)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 703