تخریج: «أخرجه البخاري، الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:645، ومسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:650 و حديث أبي هريرة أخرجه البخاري، الأذان، حديث:647، ومسلم، المساجد، حديث:651، وحديث أبي سعيد الخدري أخرجه البخاري، الأذان، حديث:646.»
تشریح:
نماز باجماعت پڑھنا فرض اور واجب ہے یا سنت ِ مؤکدہ؟ اس میں اختلاف ہے۔
اس حدیث سے بظاہر ان حضرات کی تائید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نماز باجماعت پڑھنا فرض اور واجب نہیں کیونکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے میں مختلف اسباب کی وجہ سے درجات میں کمی و بیشی ہوتی ہے تو گویا منفرد کی بھی نماز ہوگئی‘ خواہ مراتب اور درجات کم ہی ہوں۔
اگر باجماعت نماز واجب ہوتی تو پھر منفرد کی نماز جائز ہی نہ ہوتی‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ نماز جماعت سے پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
نماز باجماعت کی فرضیت اور اس کے وجوب کے قائلین کے نقطۂ نظر کے مطابق مذکورہ بالا استدلال کئی وجوہ کی بنا پر محل نظر ہے۔
ایک یہ کہ کسی چیز کی افضیلت کے ذکر سے اس چیز کی فرضیت اور وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔
دوسرے یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی اس پر مواظبت اور ہمیشگی کی ہے۔
اور تیسرے یہ کہ نماز باجماعت میں سستی کرنے والوں کی بابت احادیث میں سخت وعیدیں مذکور ہیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو ان کے گھروں کے اندر ہی زندہ جلا دینے کا ارادہ فرمایا ہے‘ نیز بعض روایات میں تو بغیر کسی شرعی عذر کے اکیلے پڑھی گئی نماز کو فَلاَ صَلاَۃَ لَہُکہا گیا ہے۔
بنابریں راجح بات یہی لگتی ہے کہ نماز کی باجماعت ادائیگی ضروری ہے۔
ہاں‘ اگر کوئی معقول شرعی عذر ہو تو پھر بغیر جماعت کے اکیلے نماز پڑھنے والا بھی ماجور ہو گا۔
اور اس کے ذمہ سے یہ فرض ادا ہو جائے گا۔
لیکن بلاعذر جماعت چھوڑنے پر گناہ گار ہو گا۔
واللّٰہ أعلم۔