وعن طلق بن علي رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «لا وتران في ليلة» . رواه أحمد والثلاثة وصححه ابن حبان.
سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ”ایک رات میں دو مرتبہ وتر نہیں۔ “ اسے احمد نے اور تینوں یعنی ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 304]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في نقض الوتر، حديث:1439، والترمذي، الوتر، حديث: 470، والنسائي، قيام الليل، حديث:1680، وأحمد:4 /23، وابن حبان (الإحسان): 4 /75، حديث:2440.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 304
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في نقض الوتر، حديث:1439، والترمذي، الوتر، حديث: 470، والنسائي، قيام الليل، حديث:1680، وأحمد:4 /23، وابن حبان (الإحسان): 4 /75، حديث:2440.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں پڑھنے چاہییں۔ بعض حضرات کا یہ کہنا کہ اگر اول رات میں وتر پڑھے ہوں‘ پھر رات کے آخری حصے میں بیدار ہو تو پہلے ایک رکعت پڑھ کر جفت (جوڑا) بنا لے‘ پھر نفل پڑھ کر آخر میں وتر پڑھ لے‘ صحیح نہیں ہے۔ یہ عمل اس حدیث کے خلاف ہے۔ مزید تفصیل کے لیے امام مروزی رحمہ اللہ کی ”قیام اللیل“ ملاحظہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 304
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1680
´ایک رات میں دو (بار) وتر پڑھنے سے ممانعت کا بیان۔` قیس بن طلق کہتے ہیں ہمارے والد طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں ایک دن ہماری زیارت کی اور ہمارے ساتھ انہوں نے رات گزاری، ہمارے ساتھ اس رات نماز تہجد ادا کی، اور وتر بھی پڑھی، پھر وہ ایک مسجد میں گئے، اور اس مسجد والوں کو انہوں نے نماز پڑھائی یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئی، تو انہوں نے ایک شخص کو آگے بڑھایا، اور اس سے کہا: انہیں وتر پڑھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”ایک رات میں دو وتر نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1680]
1680۔ اردو حاشیہ: جمہور اہل علم کے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ اگر شروع رات میں وتر پڑھ چکا ہو اور دوبارہ موقع مل جائے تو دو دو رکعت پڑھتا رہے، دوبارہ وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں، البتہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حسن سند کے ساتھ منقول ہے کہ اس صورت میں تہجد شروع کرنے سے پہلے ایک رکعت پڑھ کر رات کی طاق نماز کو جفت کر لے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔ اس طرح نماز مجموعی طور پر طاق بن جائے گی اور وتر بھی آخر میں ہو جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا عمل اسی طرح تھا۔ دیکھیے: (مسند احمد: 2؍135) یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے اور ذاتی عمل ہے لیکن اس طرح باب کی حدیث میں ذکر کردہ طریقے سے وتر درمیان میں آجائے گا جبکہ آپ نے وتر رات کی نماز کے آخر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ وتر آخر میں پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے، نیز اول رات تو وتر آخر ہی میں پڑھا گیا تھا اگر صبح کے وقت پڑھا جاتا تو آخر ہی میں پڑھا جاتا۔ جمہور اہل علم کی بات زیادہ قوی ہے ورنہ وتر تین دفعہ پڑھا جائے گا اور آپ نے تو دو دفعہ وتر پڑھنے سے بھی روکا ہے، تین دفعہ کیسے جائز ہو گا؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سن النسائی: 18؍39۔ 42)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1680
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1439
´وتر دوبارہ نہ پڑھنے کا بیان۔` قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان میں ایک دن ہمارے پاس آئے، شام تک رہے روزہ افطار کیا، پھر اس رات انہوں نے ہمارے ساتھ قیام اللیل کیا، ہمیں وتر پڑھائی پھر اپنی مسجد میں گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ جب صرف وتر باقی رہ گئی تو ایک شخص کو آگے بڑھایا اور کہا: اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ ”ایک رات میں دو وتر نہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1439]
1439. اردو حاشیہ: کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اگر انسان نے عشاء کے وقت وتر پڑھ لیے ہوں۔ اور پھر وہ جب تہجد کے لئے اُٹھے۔ تو پہلے ایک رکعت پڑھے تاکہ پہلے کی پڑھی ہوئی نماز وتر جفت بن جائے۔ بعد ازاں اپنی نماز پڑھتا رہے۔ اور پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔ تاکہ اس ارشاد پر عمل ہوجائے۔ جس میں ہے کہ اپنی رات کی نماز کا آخری حصہ وتر کو بناؤ۔ مگر راحج یہی ہے کہ وتر کو نہ توڑا جائے۔ کیونکہ اس کے بارے میں مروی روایت ضعیف ہے۔ گویا پڑھے ہوئے وتر کو توڑ کر جفت بنانا نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں۔ اس لئے جو شخص تہجد کا عادی نہ ہو۔ اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ وتر عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لے۔ پھر اگر اسے تہجد کے وقت اُٹھنے کا موقع مل جائے۔ تو وہ دو دورکعت کر کے نماز تہجد پڑھ لے۔ آخر میں اسے وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1439