تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب كم الوتر؟، حديث:1422، والنسائي، قيام الليل، حديث:1711، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1190، وابن حبان (الموارد)، حديث:670.* المرفوع والموقوف، صحيحان كلاهما، ولم أرلمضعفه حجة.»
تشریح:
1. وتر واجب ہے یا سنت؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے واجب کہتے ہیں مگر جمہور علماء اسے سنت قرار دیتے ہیں۔
”وتر کا پڑھنا حق ہے
“ کے الفاظ وجوب پر تو دلالت نہیں کرتے‘ البتہ اس کی اہمیت پر ضرور دال ہیں۔
2.ایک دوسری حدیث میں بھی ہے:
«اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَّمْ یُوتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا» ”وتر برحق ہے‘ جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔
“ (سنن أبي داود‘ الوتر‘ باب فیمن لم یوتر‘ حدیث:۱۴۱۹‘ و مسند أحمد:۵ /۳۵۷) اس حدیث کو بعض محققین نے شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۳۸ / ۱۲۷‘ ۱۲۸) اس حدیث میں بھی وتر پڑھنے کی تاکید بیان کی گئی ہے مگر وجوب کا بیان نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر و حضر میں وتر پڑھے ہیں اور سواری پر بھی۔
دیکھیے:
(صحیح البخاري‘ الوتر‘ باب الوتر علی الدابۃ‘ وباب الوتر في السفر‘ حدیث:۹۹۹‘ ۱۰۰۰) اور سواری پر ادا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وتر واجب نہیں۔
3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر ایک‘ تین‘ پانچ سب درست ہیں۔
احناف کا صرف تین وتر پر اکتفا کرنا صحیح اور صریح روایات کی بنا پر درست نہیں۔