تخریج: «أخرجه مسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة....، حديث:597.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ہر نماز کے اختتام پر‘ خواہ وہ نفل نماز ہو یا فرض یہ کلمات پڑھنے مسنون بھی ہیں اور بکثرت گناہوں کے بخشے جانے کی نوید بھی‘ اگرچہ بعض علماء نے ان کلمات کا فرائض کے بعد پڑھنا مشروع قرار دیا ہے۔
2. اس دعا کا پس منظر جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز فقراء مہاجرین نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مالدار اور صاحب ثروت لوگ بڑے بڑے درجے اور دائمی عیش لے گئے۔
وہ لوگ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس مال و دولت کی بہتات ہے جس سے وہ حج و عمرہ اور جہاد کرتے ہیں‘ غلام آزاد کرتے ہیں اور صدقہ خیرات بھی دیتے ہیں
(ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس مال و دولت کی فراوانی نہیں ہے۔
) آپ نے
(انھیں تسلی دیتے ہوئے) فرمایا:
”میں تمھیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جس پر عمل کر کے تم اپنے سے بڑھ جانے والوں کا ثواب بھی حاصل کر لو اور تمھارے بعد تمھیں کوئی نہ پا سکے اور تم جن لوگوں میں ہو ان سے بہتر ہو جاؤ گے الا یہ کہ کوئی وہی عمل کرے جو تم کرو
“؟ اس موقع پر آپ نے ہر نماز کے بعد مذکورہ کلمات کہنے کا حکم فرمایا۔
(صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب الذکر بعد الصلاۃ‘ حدیث:۸۴۳‘ وصحیح مسلم‘ المساجد‘ باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ‘ حدیث:۵۹۵) 3.ان کلمات کو پڑھنے کی دو صورتیں اس حدیث سے معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ سُبْحَانَ اللّٰہ ۳۳ مرتبہ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳ مرتبہ اور اللّٰہُ أَکْبَرُ ۳۴ مرتبہ۔
دوسری یہ کہ ۳۳‘ ۳۳ مرتبہ تینوں کلمات اور ایک مرتبہ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ ‘ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیـرٌ پڑھ کر سو کی تعداد پوری کرے۔
اگر تینوں کلمات بالترتیب ۳۳‘ ۳۳ اور ۳۴ مرتبہ پڑھے جائیں تو پھر لَا إِلٰہ َ إِلَّا اللّٰہ…الخ نہیں پڑھنا چاہیے‘ یہ سنت سے ثابت نہیں۔