وعن حذيفة رضي الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فما مرت به آية رحمة إلا وقف عندها يسأل، ولا آية عذاب إلا تعوذ منها. أخرجه الخمسة، وحسنه الترمذي.
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب ایسی آیت گذرتی جس میں رحمت الٰہی کا ذکر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں وقفہ فرما کر رحمت طلب فرماتے اور جب آیت عذاب گزرتی تو وہاں ذرا وقفہ فرما کر اس سے پناہ مانگتے۔ اسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 229]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب وضع اليدين علي ركبتين، حديث:871، والترمذي، الصلاة، حديث:262، والنسائي، قيام اليل، حديث:1665، وابن ماجه، إقامة الصلاة، حديث:888، وأحمد:6 /24، وأخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:772 مطولاً.»
سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم ثم رفع رأسه فقال سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد وأطال القيام ثم سجد فأطال السجود يقول في سجوده سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى لا يمر بآية تخويف أو تعظيم لله إلا ذكره
قال في ركوعه سبحان ربي العظيم مثل ما كان قائما ثم جلس يقول رب اغفر لي رب اغفر لي مثل ما كان قائما سجد فقال سبحان ربي الأعلى مثل ما كان قائما فما صلى إلا أربع ركعات حتى جاء بلال إلى الغداة
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 229
لغوی تشریح: «وَقَفَ» رُک جاتے، قرأت سے وقفہ فرماتے۔ «يَسْأَلُ» اللہ سے اس کی رحمت طلب فرماتے۔
فائدہ: یہ عمل غالباً آپ کا نماز تہجد میں ہوتا تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس بات کی وضاحت ہے۔ [صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب تطويل القراءة فى صلاة الليل، حديث: 772] چنانچہ مسند احمد، ابوداود اور ابن ماجہ میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ایسا نفل نماز میں کرتے تھے۔ [مسند أحمد: 347/4، و سنن أبى داود، الصلاة، باب الدعاء فى الصلاة، حديث: 881، وسنن ابن ماجه۔ إقامة الصلوت، باب ماجاء فيل القرءة فى صلاة اليل۔ حديث: 1352] اسی طرح مسند أحمد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا [مسند أحمد: 92/6] اور ابوداود اور نسائی میں سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل تہجد کی نماز میں تھا۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب مايقل الرجل فى ركوعه و سجوده، حديث: 873، و سنن النسائي، الصلاة، باب الدعاء فى السجود، حديث 1133] اور اگر کوئی یہ عمل فرض نماز میں بھی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں بالخصوص جبکہ وہ اکیلا فرض نماز پڑھ رہا ہو کیونکہ ایسی صورت میں وہ کسی کو مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ [سبل السلام]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 229
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1814
فقہ الحدیث ❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز میں تسبیح والی آیت پڑھتے تو تسبیح فرماتے، جب دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اور جب تعوذ والی آیت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے۔ ❀ امام ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔ جب آپ نے « ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَي﴾ » کی تلاوت کی تو کہا: «سبحان ربي الاعليٰ» ۔ [المصنف لابن ابي شيبه 2/508] ↰ تقریباً یہی عمل عمران بن حصین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ سے ثابت ہے۔ [ايضاً] لہٰذا امام کیلئے جائز ہے کہ جمعہ وغیرہ میں کسی آیت کی تلاوت کے بعد کبھی کبھار اس کا جواب بھی عربی زبان میں ہی جہراً یا سراً دے دے تاہم مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ مقتدی حضرات بھی آیات کا جوا ب دیں گے لہٰذا نمازیوں کو چاہئے کہ وہ حالت جہر میں امام کے پیچھے صرف سورۂ فاتحہ پڑھیں۔ «والله أعلم»
۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 1
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 871
´آدمی رکوع اور سجدے میں کیا کہے؟` شعبہ کہتے ہیں: میں نے سلیمان سے کہا کہ جب میں نماز میں خوف دلانے والی آیت سے گزروں تو کیا میں دعا مانگوں؟ تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، جسے انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، سعید نے مستورد سے، مستورد نے صلہ بن زفر سے اور صلہ بن زفر نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے تھے، اور اپنے سجدوں میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے، اور رحمت کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں، اور اللہ سے سوال نہ کیا ہو، اور عذاب کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں اور عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 871]
871۔ اردو حاشیہ: ➊ قرات قرآن انتہائی غور و فکر سے کرنی چاہیے، خواہ نماز کے دوران ہو یا اس کے علاوہ۔ ➋ تلاوت قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رحمت کی آیات پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ و مفہوم آتا ہو۔ لہٰذا علم حاصل کرنا چاہیے۔ « »
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 871
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1047
´رکوع کی دعا (ذکر) کا بیان۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا تو اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1047]
1047۔ اردو حاشیہ: ایک اور روایت میں یہ تسبیحات کم از کم تین دفعہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آخر میں ہے کہ یہ کم از کم رکوع و سجود ہے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني: حدیث: 155] صحیح روایت میں بجائے حکم کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فعل منقول ہے۔ دیکھیے: [صحیح أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 828] لہٰذا کم از کم سجدے میں تین تسبیحات افضل ہیں، ضروری نہیں۔ نیز طاق کی قید کے بغیر تین سے زیادہ تسبیحات بھی کہی جا سکتی ہیں۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ احادیث ہیں جن میں آپ کے قیام، رکوع اور سجدے کی یکساں مقدار بتائی گئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1047
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1134
´سجدہ کی ایک اور دعا۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، آپ نے سو آیتیں پڑھ لیں لیکن رکوع نہیں کیا، اور آگے بڑھ گئے، میں نے اپنے جی میں کہا: لگتا ہے کہ آپ اسے دونوں رکعتوں میں ختم کر دیں گے، لیکن آپ برابر آگے بڑھتے رہے، تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ اسے ختم کر کے ہی پھر رکوع کریں گے، لیکن آپ سورت ختم کر کے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ پوری سورۃ نساء آپ نے پڑھ ڈالی، پھر سورۃ اٰل عمران بھی پڑھ ڈالی، پھر تقریباً اپنے قیام ہی کے برابر رکوع میں رہے، اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے: «سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم» پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع اللہ لمن حمده ربنا لك الحمد» کہا، اور دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے سجدہ کیا تو دیر تک سجدہ میں رہے، آپ سجدے میں کہہ رہے تھے: «سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى» جب آپ کسی خوف کی یا اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی آیت پر سے گزرتے، تو اللہ کا ذکر کرتے یعنی اس کی حمد و ثنا کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1134]
1134۔ اردو حاشیہ: ➊ آپ نے سورۂ نساء پہلے پڑھی، آل عمران بعد میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرأت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔ ➋ اس حدیث میں رکوع اور سجدے کی مذکورہ تسبیحات مختصر اور جامع ہیں، اس لیے امت میں یہی رائج ہو چکی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض نماز میں ان کے علاوہ دوسری تسبیحات یا ادعیہ جائز ہی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور جماعت کی صورت میں، مقتدیوں اور امام کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سی تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔ ➌ قرأت قرآن کے وقت الفاظ و معانی کی طرف پوری توجہ دینا اور پھر ان سے متاثر ہونا، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا سوال، سزا اور عذاب سے تعوذ، صالحین کی معیت اور مفسدین سے بچاؤ، دخول جنت اور جہنم سے نجات کی دعائیں کرنا نمازی کے خشوع خضوع کی دلیل ہے اور یہی نماز سے مطلوب ہے۔ اس میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق نہیں، البتہ مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ➍ کیا مقتدی بھی امام کی قرأت میں کسی سوال کا جواب، حکم کی بجا آوری اور رحمت کی دعا وغیرہ کرسکتے ہیں؟ علمائے امت کا اس میں اختلاف ہے۔ کچھ عدم جواز کے قائل ہیں اور کچھ نے عمومات سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف قاری جواب دے گا کیونکہ حدیث میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قرأت کر رہے تھے کیونکہ آپ امام تھے۔ اسی طرح منفرد بھی جواب دے گا کیونکہ وہ بھی خود قرأت کرتا ہے، مقتدی جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ فاتحہ کے علاوہ قرأت نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1134
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1666
´تہجد میں قیام، رکوع، رکوع کے بعد قیام، سجدہ، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک سب کے برابر ہونے کا بیان۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور یہ اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ کا قیام تھا، آپ نے اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہا، پھر آپ اتنی ہی دیر بیٹھے جتنی دیر کھڑے تھے، اور «رب اغفر لي رب اغفر لي» کہتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر تک سجدہ کیا جتنی دیر تک آپ کھڑے تھے، اور «سبحان ربي الأعلى» کہتے رہے تو آپ نے صرف چار رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے بلانے آ گئے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک مرسل (منقطع) ہے، میں نہیں جانتا کہ طلحہ بن یزید نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کچھ سنا ہے، علاء بن مسیب کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں یوں کہا: «عن طلحۃ، عن رجل، عن حذیفۃ» ۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1666]
1666۔ اردو حاشیہ: ➊ یہاں مرسل سے منقطع مراد ہے۔ اصطلاحی معنی مراد نہیں۔ علم حدیث میں مرسل کے اصطلاحی معنی یہ ہے کہ تابعی براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل بیان کرے۔ مذکورہ روایت میں تو وہ براہ راست بیان نہیں کر رہے بلکہ صحابی کا ذکر موجود ہے۔ ➋ معلوم ہوا نماز میں دوران قرأت، دعاواستغفار وغیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ کرنا چاہیے، نہ کہ خالی قرأت کرتا رہے۔ جس طرح سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرنا مستحب ہے ایسے ہی موقع محل کے لحاظ سے تسبیح، دعا اور تعوذ بھی ہونا چاہیے، نیز ایک ہی آیت یا تسبیح یا دعا کو نماز میں با ربار دہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی خصوصی نقل کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات قیام میں صرف ایک آیت (ان تعذبھم فانھم عبادک۔۔۔) پر اکتفا کیا اور اسے ہی بار بار دہراتے رہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1666
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث888
´رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا (تسبیح) کا بیان۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع میں «سبحان ربي العظيم» تین بار، اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» تین بار کہتے سنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 888]
اردو حاشہ: فائدہ: تین بار یہ تسبیحات کہنا رکوع اور سجدے کی کم از کم مقدار ہے۔ رسول اللہ ﷺنے نماز تہجد کے رکوع وسجود میں بھی یہ تسبیحات پڑھی ہیں۔ جبکہ یہ رکوع وسجود انتہائی طویل تھے۔ دیکھئے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل، حدیث: 772) اس حدیث کو بعض حضرات نے صحیح کہا ہے۔ دیکھئے: (الارواء، رقم: 333)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 888
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 262
´رکوع اور سجدے میں تسبیح کا بیان۔` حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» پڑھ رہے تھے۔ اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھہرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پر آتے تو ٹھہرتے اور (عذاب سے) پناہ مانگتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 262]
اردو حاشہ: 1؎: یہ نفل نمازوں کے ساتھ خاص ہے، شیخ عبدالحق ”لمعات التنقيح شرح مشكاة المصابيح“ میں فرماتے ہیں ”االظاهر أنه كان في الصلاة محمول عندنا على النوافل“”یعنی ظاہر یہی ہے کہ آپ نماز میں تھے اور یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہو گا“۔ (اگلی حدیث میں اس کے تہجد میں ہونے کی صراحت آ گئی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 262
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1814
امام صاحب مختلف اساتذہ سے روایت کرتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی، آپﷺ نے سورہ بقرہ پڑھنی شروع کردی، میں نے دل میں سوچا، آپﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے، مگر آپﷺ نے اس کے بعد قرأت جاری رکھی، میں نے سوچا، آپﷺ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے، لیکن آپﷺ پڑھتے رہے، میں نے سوچا، آخر میں رکوع کریں گے، مگر آپﷺ نے سورہ نساء شروع کر دی، آپﷺ نے وہ پوری پڑھ ڈالی،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1814]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ رات کی نماز میں قراءت طویل فرماتے تھے اور قیام کی طوالت کے ساتھ، رکوع، قومہ اور سجدہ بھی قیام کی طرح لمبا کرتے اور اس میں تسبیحات کا تکرار فرماتے قراءت آہستہ آہستہ ٹھہرٹھہر کر فرماتے مزید برآں آیات کے مفہوم ومعنی کے مطابق جہاں تسبیح کی ضرورت ہوتی، وہاں (سُبْحَانَ اللہ) کہتے جہاں اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی ضرورت ہوتی وہاں سوال کرتے اور جہاں اللہ تعالیٰ سے تعوذ سے پناہ طلب کرنے کی ضرورت ہوتی، وہاں تعوذ فرماتے۔ اس طرح قیام مزید طویل ہو جاتا اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں سورتوں کی ترتیب سے پڑھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ آپﷺ نے آل عمران سے پہلے نساء پڑھی ہے۔ حالانکہ آل عمران پہلے ہے اور سورہ نساء بعد میں ہے۔ جولوگ نماز میں سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں ان کی بات حدیث کے خلاف ہے۔