وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا صلى أحدكم فليجعل تلقاء وجهه شيئا، فإن لم يجد فلينصب عصا، فإن لم يكن فليخط خطا، ثم لا يضره من مر بين يديه» . أخرجه أحمد وابن ماجه وصححه ابن حبان ولم يصب من زعم أنه مضطرب بل هو حسن.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو اپنے سامنے کوئی چیز گاڑ لے یا قائم کر لے۔ اگر کوئی چیز دستیاب نہ ہو سکے تو اپنی لاٹھی ہی کھڑی کر لے۔ اگر لاٹھی بھی ممکن نہ ہو سکے تو (زمین پر) خط ہی کھینچ لے۔ اب آگے سے گزرنے والا نمازی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ “ اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور جس کسی نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے اس نے صحیح نہیں کہا (وہ غلطی پر ہے) بلکہ یہ حدیث حسن کے مرتبہ کی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 185]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:2 /249، وابن ماجه، الصلاة، حديث:943، وابن حبان (الموارد)، حديث:407* ابن عمرو بن حريث وجده مجهولان.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 185
� لغوی تشریح: «فَلْيَنْصِبْ» «ىنَسْبٌ» سے ماخوذ ہے۔ یہ باب ضرب اور نصر دونوں سے آتا ہے۔ زمین میں کسی چیز کو گاڑنا، قائم کرنا، کھڑا کرنا وغیرہ۔ «لَمْ يُصِبْ» سے ماخوذ ہے یعنی وہ صواب اور درستی کو نہیں پہنچ سکا۔ سترے کے لئے صرف لکیر کھینچنے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ تو اس سے منع کرتا ہے اور جماعت اس کی قائل ہے اور انہوں نے سترے کے لیے جب کوئی چیز دستیاب نہ ہو سکے تو ایسی صورت میں لکیر کھینچنے کو کافی سمجھا ہے۔ پھر اس میں بھی اختلاف رائے ہے کہ سترے کی کیفیت کیسی ہو؟ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک وہ ہلالی صورت کا ہونا چاہیے، یعنی محراب کی طرح قوس دار۔ اور بعض نے کہا ہے قبلہ رخ لمبا خط کھینچا جائے۔ اور یہ بھی رائے ہے کہ دائیں سے بائیں کھینچا جائے۔
فائدہ: اس حدیث کو مضطرب کہنے والے ابن صلاح ہیں۔ مصنف نے [ضعيف سنن أبى داود، حديث 134] میں تفصیل سے اس پر نقد کیا ہے، نیز ہمارے فاضل محقق اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے اس لیے کہ اس میں شدید اضطراب ہے اور دو مجہول راوی ہیں۔ دیکھیے: [ضعيف سنن أبى داود، حديث: 134] لہٰذا سترے کے لیے خط (لکیر) کھینچنا درست نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 185
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث943
´نمازی کے سترہ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے کچھ رکھ لے، اگر کوئی چیز نہ پائے تو کوئی لاٹھی کھڑی کر لے، اگر وہ بھی نہ پائے تو لکیر کھینچ لے، پھر جو چیز بھی اس کے سامنے سے گزرے گی اسے نقصان نہیں پہنچائے گی۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 943]
اردو حاشہ: یہ روایت ضعیف ہے۔ اس لئے روایت سے خط کھینچنے کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 943
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1023
1023- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جب کوئی شخص نماز ادا کرے، تو وہ سامنے کی طرف کوئی چیز رکھ لے، اگر اسے کوئی چیز نہیں ملتی، تو وہ لاٹھی کھڑی کرلے، اگر لاٹھی بھی نہیں ملتی، تو وہ لیکر کھینچ لے۔ پھر اس کی دوسری طرف سے جو بھی گزرے گا وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1023]
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے لیکن نمازی کا سترے کا اہتمام کرنا صحیح البخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے ثابت ہے، کچھ تفصیل پہلے بھی گزر چکی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1022