وعن عائشة قالت: سئل النبي صلى الله عليه وآله وسلم في غزوة تبوك عن سترة المصلي. فقال: «مثل مؤخرة الرحل» . أخرجه مسلم
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سترہ کے متعلق پوچھا گیا (کہ اس کی لمبائی کتنی ہونی چاہیئے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اونٹ کے پالان کے پچھلے حصہ کی اونچائی کے برابر ہونا چاہیئے۔ “(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 181]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب سترة المصلي والندب إلي الصلاة إلي سترة...، حديث:500.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 181
� لغوی تشریح: «فِي غَزْوَةِ تَبُوك» یہ غزوہ رجب 9 ہجری میں رومیوں کے خلاف ہوا مگر لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔ تبوک حجاز کے شمال میں فلسطین کے قریب ایک جگہ ہے۔ «مُؤْخَرَةِ»”میم“ پر ضمہ، ”ہمزہ“ ساکن اور ”خا“ پر فتحہ یا کسرہ دونوں ہو سکتے ہیں۔ اور ”ہمزہ“ پر فتحہ اور ”خا“ پر تشدید اور فتحہ یا کسرہ دونوں جائز ہیں، نیز ”میم“ پر فتحہ اور ”واؤ“ پر سکون، ہمزہ کے بغیر اور ”خا“ کے نیچے کسرہ بھی درست ہے۔ یہ کجاوے کی وہ لکڑی ہوتی ہے جس کے ساتھ سواری کرنے والا ٹیک لگاتا ہے۔ «الرَّحْل» کجاوہ وغیرہ جو اونٹ کی پشت پر رکھا جاتا ہے۔
فائدہ: احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازی کے سامنے سترہ ہونا چاہیے۔ سترے کی اونچائی اتنی ہونی چاہیے جتنی اونٹ کے کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی ہوتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 181