الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
2. باب الأذان
2. اذان کا بیان
حدیث نمبر: 150
وعن أبي قتادة رضي الله عنه في الحديث الطويل في نومهم عن الصلاة ثم أذن بلال فصلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم كما كان يصنع كل يوم. رواه مسلم. وله عن جابر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أتى المزدلفة،‏‏‏‏ فصلى بها المغرب والعشاء بأذان واحد وإقامتين. وله عن ابن عمر رضي الله عنهما: جمع النبي صلى الله عليه وآله وسلم بين المغرب والعشاء بإقامة واحدة. وزاد أبو داود: لكل صلاة.وفي رواية له: ولم يناد في واحدة منهما.
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے (ایک لمبی حدیث جس میں دوران سفر غلبہ نیند اور تھکاوٹ سفر کی وجہ سے سو جانے کا ذکر ہے) مروی ہے، جب نیند سے بیداری ہوئی تو پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح روزانہ پڑھتے تھے۔ (مسلم) اور مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں پہنچے تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامتوں سے پڑھی اور مسلم ہی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے ایک ہی اقامت کے ساتھ ادا فرمائیں اور ابوداؤد نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ ہر نماز کیلئے تکبیر کہی گئی اور اسی کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ان دونوں نمازوں میں سے کسی کے لئے بھی اذان نہیں کہی گئی۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 150]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها، حديث:681 وحديث جابرأخرجه مسلم، الحج، حديث:1218 وحديث ابن عمر أخرجه مسلم، الحج، حديث: 1288، وأبوداود، المناسك، حديث:1927-1930.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 150 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 150  
لغوی تشریح:
«فِي نَوْمِهِمْ عَنِ الصَّلَاةِ» سونے کا واقعہ نماز فجر کا ہے۔ واقعہ کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ رات کے آخری حصے میں کہیں پڑاؤ کیا۔ آپ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بیدار رہنے کا حکم فرمایا تاکہ جب فجر طلوع ہو تو وہ انہیں جگا دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر نیند کا غلبہ ہوا تو وہ بھی سو گئے، چنانچہ طلوع آفتاب کے بعد آنکھ کھلی تو (یہ صورتحال ملاحظہ فرما کر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وادی سے نکلنے کا حکم دیا۔ (تعمیل حکم میں) سب صحابہ اس وادی سے نکل گئے (اور آگے دوسری جگہ پڑاؤ ڈالا) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور آپ نے نماز پڑھائی۔
«مُزْدَلِفَة» یہ ایک مقام کا نام ہے جو منیٰ اور عرفات کے درمیان واقع ہے۔ 9 اور 10 ذوالحجہ کی درمیانی رات وہاں گزارنا حج کے شعائر میں سے ہے۔ عرفات میں وقوف کے بعد دسویں ذی الحجہ کی شروع رات کو حجاج کرام اس جگہ آتے ہیں۔
«وَلَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِّنْهُمَا» ان دونوں میں سے کسی کے لیے بھی منادی (اذان) نہیں کہی گئی۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نماز اگر جماعت سے پڑھی جائے تو اس کے لیے اذان دینا مشروع ہے۔
➋ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری حدیث اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی پہلی حدیث باہم متعارض ہیں کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث مزدلفہ کے قیام کے دوران میں مغرب وعشاء کو جمع کر کے پڑھنے کی صورت میں اذان دینے کی نفی کرتی ہے جبکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اذان اور دو اقامتیں کہی گئیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث زیادہ قوی ہے۔ علاوہ ازیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اذان کی نفی ہے اور حدیث جابر میں اس کا اثبات ہے۔ اور مثبت روایت منفی پر مقدم ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 150