تخریج: «أخرجه النسائي في الكبرٰي: 4 /445، حديث:7868، والحاكم:1 /510 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي، وحديث أبي هريرة: أخرجه الترمذي، الدعوات، حديث:3599 وسنده ضعيف، محمد بن ثابت مجهول، وتلميذه ضعيف.»
تشریح:
1. اس حدیث میں جو دعا منقول ہے اس میں ایسے علم کے لیے درخواست کی گئی ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید اور سود مند ہو۔
2. جو علم‘ آخرت تباہ کر دے اس کی دعا کرنا مومن کو زیب نہیں دیتا کیونکہ مومن کے نزدیک اخروی کامیابی و کامرانی بنیادی چیز ہے۔
3.نافع علم وہ ہے جس سے ایمانی قوت میں اضافہ ہو اور عمل کرنے کی رغبت پیدا ہو۔
4. دنیاوی علوم کی درخواست دنیاوی امور کی اصلاح اور بہتری کے لیے جائز ہے۔
اس سے انسان کے ایمان باللہ میں اضافہ ہوگا‘ ان علوم میں بھی اہل ایمان کو برتری حاصل ہونی چاہیے ورنہ دنیاوی اعتبار سے کفار کا تسلط اور غلبہ ہوگا۔
اس دور میں یہی صورت حال ہے کہ ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں غیرمسلم بہت آگے نکل چکے ہیں اور وہی آج دنیا کی قیادت کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں‘ اسی زور پر جہاں چاہتے ہیں انقلاب اور تبدیلی لے آتے ہیں۔
اہل اسلام کو ان میدانوں میں بھی اپنی برتری اور فوقیت کا سکہ منوانا چاہیے۔