وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «اللهم أصلح لي ديني الذي هو عصمة أمري وأصلح لي دنياي التي فيها معاشي وأصلح لي آخرتي التي إليها معادي واجعل الحياة زيادة لي في كل خير واجعل الموت راحة لي من كل شر» . أخرجه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے «اللهم أصلح لي ديني الذي هو عصمة أمري وأصلح لي دنياي التي فيها معاشي وأصلح لي آخرتي التي إليها معادي واجعل الحياة زيادة لي في كل خير واجعل الموت راحة لي من كل شر»” اے اللہ! میرے لیے دین درست رکھنا جس میں میرے کام کا بچاؤ ہے۔ میرے لیے میری دنیا کو درست فرما جس میں میری زندگی ہے اور میرے لیے میری آخرت درست فرما جس کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔ میری زندگی کو ہر عمل خیر کی زیادتی کو سبب بنا اور موت کو میرے لیے ہر برائی سے راحت بنا دینا۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1355]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الذكر والدعاء، باب التعوذ من شرما عمل....، حديث:2720.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1355
تخریج: «أخرجه مسلم، الذكر والدعاء، باب التعوذ من شرما عمل....، حديث:2720.»
تشریح: ا.س دعا میں بھی دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے درخواست کی جا رہی ہے کہ ایک مومن صادق یہی سمجھتا ہے کہ اس دنیا کی بھلائی بھی خالق کائنات کے اختیار میں ہے اور آخرت کی بھلائی کا بھی وہی تنہا مالک ہے۔ 2.اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کر لے کہ موت مانگنا درست ہے بلکہ اس حدیث میں تو موت کے بعد پیش آنے والے حالات سے سلامتی اور امن کی درخواست ہے۔ دنیا کی تکلیفیں اور مصائب تو موت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو جاتے ہیں‘ اور آخرت کے مصائب شروع ہو جاتے ہیں‘ اس لیے ان مصائب سے سلامتی اور امن حاصل کرنے کی یہ دعا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1355