الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1291
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏أتدرون ما الغيبة؟» ‏‏‏‏ قالوا: الله ورسوله أعلم قال: «‏‏‏‏ذكرك أخاك بما يكره» ‏‏‏‏ قيل: أفرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال: «‏‏‏‏إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه فقد بهته» ‏‏‏‏أخرجه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر برائی سے کرے۔ کسی نے عرض کیا جو بات میں کہتا ہوں اگر وہ میرے بھائی میں پائی جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا جو کچھ تم اپنے بھائی کے متعلق کہتے ہو اگر وہ اس میں پائی جاتی ہے تو اس کی تو نے غیبت کی اور اگر وہ بات جو تم اس کے متعلق کہتے ہو اس میں موجود ہی نہیں تو اس پر تو نے بہتان تراشی کی ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1291]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، البروالصلة، باب تحريم الغيبة، حديث:2589.»

   صحيح مسلمإن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه فقد بهته
   جامع الترمذيما الغيبة قال ذكرك أخاك بما يكره قال أرأيت إن كان فيه ما أقول قال إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه ما تقول فقد بهته
   سنن أبي داودذكرك أخاك بما يكره قيل أفرأيت إن كان في أخي ما أقول قال إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه ما تقول فقد بهته
   بلوغ المرامإن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه فقد بهته

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1291 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1291  
تخریج:
«أخرجه مسلم، البروالصلة، باب تحريم الغيبة، حديث:2589.»
تشریح:
اس حدیث میں غیبت کی قباحت و شناعت بیان ہوئی ہے۔
غیبت بالاتفاق حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔
قرآن میں غیبت کرنے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ غیبت کرنے والا اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1291   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1291  
تخريج:
[مسلم، البرو الصلة 70]،
[تحفة الاشراف 223/10]
غیبت مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
«وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ» [49-الحجرات:12]
تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو تم اسے برا جانتے ہو۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردہ کا گوشت کھایا جائے تو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا اسی طرح وہ شخص جس کی غیبت کی جا رہی ہو پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنی عزت کا دفاع نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مردار کھانے کو حرام قرار دیا ہے اور اگر وہ مردہ انسان کا گوشت ہو اور انسان بھی وہ جو بھائی ہے تو اس کی حرمت کس قدر زیادہ ہو گی؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کا مفہوم خود بتانے کی بجائے صحابہ سے کیوں پوچھا؟:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت دانا اور حکیم معلم تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم دیتے وقت صحابہ کو کسی نہ کسی طرح متوجہ کر کے ان میں علم کی طلب پیدا کر لیتے تھے تاکہ بات اچھی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ جائے اور اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں قرآن مجید کی سب سے بڑی سورة بتاؤں گا۔ جب آپ مسجد سے نکلنے لگے تو صحابی نے ہاتھ پکڑ کر وعدہ یاد دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورہ فاتحہ ہے۔ [بخاري: 4474، 4647 ]
معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یقیناًً اے معاذ! مجھے تم سے محبت ہے۔ یہ تعلق جتانے کے بعد فرمایا کہ کسی نماز میں یہ دعا مت چھوڑنا:
«رب اعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك» [صحيح النسائي 1236۔ السهو 60 ]
اگر غور کریں تو طریق تعلیم پر جدید ماہرین کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحات اس ایک نکتے کی معمولی سی تشریح ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔

غیبت کیا ہے؟:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کی ایسی واضح اور جامع تعریف فرمائی ہے کہ اس میں کوئی ابہام باقی نہیں چھوڑا۔
«ذكرك اخاك بما يكره»
تمہارا اپنے بھائی کو اس چیز کے ساتھ ذکر کرنا جس (کے ساتھ ذکر کئے جانے) کو وہ ناپسند کرتا ہے۔
امام نووی نے الاذکار میں اس کی کچھ تفصیل فرمائی ہے خلاصہ یہ ہے کہ:
خواہ وہ چیز اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہو یا دین سے یا دنیا سے، اس کی شکل و صورت کے بارے میں ہو یا اخلاق کے، اس کے مال، اولاد، والدین، بیوی بچوں کے متعلق ہو یا اس کے لباس، چال ڈھال، بول چال، خندہ پیشانی یا ترش روئی کے متعلق غرض اس سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا ذکر جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے۔ پھر خواہ یہ ذکر زبان سے کیا جائے یا تحریر سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے تمام صورتوں میں غیبت ہے۔ اشاره خواہ آنکھ سے ہو یا ہاتھ سے، سر کے ساتھ ہو یا جسم کے کسی حصے کے ساتھ غیبت میں شامل ہے۔

بدن کی غیبت:
مثلاً اس کی تنقیص کے لئے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، ٹھگنا، لمبوترا، کالا، کبڑا یا اس قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرے۔ دین کے بارے میں غیبت یہ ہے کہ: اسے فاسق، چور، خائن، ظالم، نماز میں سست، پلید، ماں باپ کا نافرمان، بدمعاش وغیرہ کہے۔ دنیا کے بارے میں مثلاً: اسے نکما، باتونی، پیٹو وغیرہ کہے۔ اخلاق کے متعلق مثلاً: اسے بدخلق، متکبر، ریاکار، جلد باز، بزدل، سڑیل قرار دے۔ اس کے والد کے متعلق مثلاً: جولاہا، موچی، کالا حبشی وغیرہ کہہ کر اس کی تنقیص کرے۔ پھر زبان ہاتھ، جسم کے ساتھ غیبت کی ایک صورت اس کی نقل اتارنا ہے۔ مثلاً: اس کے اٹک اٹک کر بات کرنے یا ناک میں بولنے کی، لنگڑا کر چلنے کی، کبڑا ہونے کی یا چھوٹے قد کا ہونے کی نقل اتارے۔ غرض قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حرکت جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تنقیص ہو غیبت ہے اور حرام ہے۔

کیا غیبت کسی صورت میں جائز بھی ہوتی ہے؟:
بعض اوقات مسلم بھائی کی غیبت جائز بھی ہو جاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کا عیب بیان کیا جا سکتا ہے۔
قاعدہ اس کا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی ضروری مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہو سکتا ہو تو اس وقت یہ جائز ہے۔ نووی نے اور ان سے پہلے غزالی نے غیبت کے جواز کے چھ موقعے گنائے ہیں:
ظلم پر فریاد:
مظلوم کو حق ہے کہ ظالم کے خلاف بات کرے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا:
«لَّا يُحِبُّ اللَّـهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ» [4-النساء:148]
اللہ تعالیٰ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا جائے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ان لصاحب الحق مقالا» حق والے کو بات کرنے کی گنجائش ہے۔ [بخاري: ح 2390]
بہتر یہ ہے کہ بادشاہ یا قاضی یا ایسے شخص کے پاس اپنی مظلومیت کا تذکرہ کرے جو اس کی مدد کر سکتا ہو۔
کسی گناہ یا برے کام کو روکنے کے لئے ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو اس کے ساتھ مل کر یا خود اسے روک سکیں۔
اگر مقصد صرف اس کام کرنے والے کی تذلیل ہو تو یہ جائز نہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات و احادیث اس کی دلیل ہیں۔
③ فتویٰ لینے کے لئے مفتی کے سامنے کسی کے نقص کا ذکر کرے تو یہ جائز ہے، مثلاً ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو۔ کیا میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے لے لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمهارے بچوں کے لئے جتنا کافی ہو معروف طریقے کے ساتھ لے لیا کرو۔ [بخاري: 2211، البيوع/94 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند ہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاوند کا عیب بیان کرنے سے منع نہیں فرمایا کیونکہ اس کا مقصد مسئلہ پوچھنا تھا۔
④ مسلمانوں کی خیرخواہی کے لئے اور انہیں شر سے بچانے کے لئے کسی کی برائی سے آگاہ کرے تو یہ جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ايذنوا له بئس اخو العشيرة» [البخاري۔ 6054 ]
اسے اجازت دے دو یہ خاندان کا بہت برا آدمی ہے۔ (حديث لمبی ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس شخص کی برائی سے آگاہ کرنا ضروری خیال فرمایا۔ مسلمانوں کی خیرخواہی میں اور انہیں شر سے بچانے میں بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں:۔
(الف) حدیث کے راویوں پر اور مقدمے کے گواہوں پر جرح جائز بلکہ واجب ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔
(ب) جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، کاروبار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے تو صحیح صحیح بات بتا دے۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابوجہم رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو کنگال ہے اس کے پاس کچھ نہیں اور ابوجہم عورتوں کو بہت مارتا ہے تم اسامہ سے نکاح کر لو۔ [صحيح مسلم: 1480، الطلاق6 ]
اور یہ مومن کا حق ہے «واذا ستنصحك فانصح له» جب وہ تم سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر۔ [صحيح مسلم 2162، الادب 3 ]
⑤ جو شخص کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتا ہو، لوگوں کو لوٹتا ہو، اعلانیہ شراب پیتا ہو تو اس کے ان گناہوں کا ذکر جائز ہے جن کو چھپانے کی وہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا اور جن کا ذکر کیا جائے تو اسے برا محسوس ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ غیبت ان چیزوں کا ذکر ہے جسے وہ ناپسند کرے۔
⑥ کوئی شخص کسی لقب کے ساتھ مشہور ہو اس کے بغیر اس کی پہچان نہ ہوتی ہو اور وہ اسے برا بھی نہ جانتا ہو تو اسے اس لقب سے ذکر کرنا جائز ہے خواہ اس میں اس کا کوئی نقص ہی بیان ہو رہا ہو۔ مثلاً: «أَعْمَشْ» (جس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہوں) «أَعْرَجْ» (لنگڑا)۔ «أَصَمْ» (بہرا) «أَعْميٰ» (نابینا) وغیره شرط یہ ہے کہ مقصد اس کی تنقیص نہ ہو۔

کیا غیر مسلم کی غیبت جائز ہے:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا»
مسلمان ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں۔
اسی طرح «ذكرك اخاك بمايكره» سے بھی ظاہر ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے۔ کیونکہ کافر ہمارا دینی بھائی نہیں۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1934  
´غیبت چغلی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے کہا: اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس انداز سے اپنے بھائی کا تمہارا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے، اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جسے میں بیان کر رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی، اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1934]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے،
قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے،
اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی،
اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت وناموس پر حملہ کرتاہے،
اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتاہے،
غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طورپر کیاجائے کہ جو اسے ناپسند ہو،
یہ تذکرہ الفاظ میں ہو،
یا اشارہ وکنایہ میں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1934   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6593  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جواب دیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تیرا اپنے بھائی کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسندکرے پوچھا گیا تو بتائیے اگر جو کچھ میں کہتا ہوں میرے بھائی میں موجود ہو فرمایا اگر جو کچھ تو کہتا ہے اس میں موجود ہے تو نے اس کی غیبت کی اور اس موجود نہیں توتونے اس پر بہتان باندھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6593]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھائی کی ایسی بات یا ایسا فعل یا حال بیان کرنا،
جو اس کے اندر موجود ہے لیکن اس کے ذکر سے اس کو ناگواری اور اذیت پہنچتی ہے،
کیونکہ اس سے وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے اور اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہے،
یہ غیبت ہے،
لیکن اگر وہ عیب یا نقص یا برائی اس کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو پھر یہ غیبت نہیں ہے بلکہ بہتان اور الزام تراشی ہے جو غیبت سے زیادہ سخت اور سنگین ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
غیبت یہ ہے کہ تم کسی انسان کے متعلق اس چیز کا ذکر کرو،
جو اسے ناگوار گزرے خواہ اس کا تعلق اس کے دین سے یا دنیا سے یا اس کے نفس اور جسمانی بناوٹ سے،
اس کے مال سے ہو یا اخلاق سے،
لباس سے ہو یا اس کی چال ڈھال سے اس کے بیوی بچوں سے ہو یا والدین اور نوکروں چاکروں سے،
خواہ یہ ذکر کلام سے ہو یا تحریر کر کے یا اشارہ کنایہ سے،
لیکن یہ خیال رہے،
عیوب و نقائص کا ذکر،
غیبت اور گناہ اس صورت میں ہو گا،
اگر اس کی دنیوی اور دینی طور پر کوئی ضرورت و حاجت نہیں ہے۔
اگر دوسروں کی خیرخواہی و ہمدردی یا کسی مفسدہ اور خرابی کے انسداد کے لیے شخص یا گروہ کی واقعی برائی دوسروں کے سامنے بیان کرنا ضروری ہو یا کسی شرعی،
اخلاقی اور تمدنی مقصد کا حصول اس پر موقوف ہو تو پھر کسی شخص یا گروہ کی برائی،
اس کا عیب و نقص اور کمزوری بیان کرنا غیبت نہیں ہو گا۔
بلکہ کار ثواب ہو گا۔
مثلا کسی حاکم کے سامنے اس کے خلاف گواہی دینا،
کسی پیشہ ور دھوکے باز کے دھوکہ سے لوگوں کو آگاہ کرنا،
حضرات محدثین کا روایات کی جانچ پڑتال کے سلسلہ میں غیر عادل راویوں کے عیوب و نقائص بیان کرنا،
دین و شریعت کی حفاظت اور مدافعت کے لیے ضروری اور اہل بدعت کی غلطیوں اور بدعتوں کا پردہ چاک کرنا اور لوگوں کو ان کی کرتوتوں سے آگاہ کرنا،
غیبت نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ضرورت ہے جس کے پورا کرنے پر اجروثواب ملے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6593