وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «تعس عبد الدينار والدرهم والقطيفة إن أعطي رضي وإن لم يعط لم يرض» . أخرجه البخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” برباد ہو گیا سونے، چاندی اور خلعت کا بندہ اگر اسے یہ ملیں تو راضی رہتا ہے اور اگر نہ دی جائیں تو ناراض ہو جاتا ہے۔“(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1267]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الرقاق، باب ما يتقي من فتنة المال، حديث:6435.»
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1267
تخریج: [بخاري 6435] [تحفته الاشراف 431/9، 439/9 ]
مفردات: «تَعِسَ» «مَنَعَ» اور «سَمِعَ» دونوں کے وزن پر آتا ہے جب کسی کو مخاطب کرنا ہو تو «مَنَعَ» استعمال کرتے ہیں، مثلاً «تَعَسْتَ» اور جب کسی کے بارے میں بیان کرنا ہو تو «فَرِح» کی طرح مثلاً «تَعِسَ» «فُلَانٌ» اس کا معنی ہلاک ہو گیا، پھسل گیا، گر گیا۔ [قاموس ] «اَلْقَطِيْفَةِ» وہ چادر جس کو جھالر لگی ہو۔
فوائد: ➊ اس حدیث میں دینار، درہم اور چادر کا ذکر بطور مثال ہے مراد یہ ہے کہ وہ آدمی دنیا کی طلب میں اس مقام پر جا پہنچا کہ دنیا کی چیزیں اس کے مالک کی طرح اسے ہر طرف لیے پھرتی ہیں انہیں حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہے جس طرح غلام مالک کا ہر حکم مانتا ہے اس کی خوشی اور ناخوشی بھی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے کہ اس کی پسندیدہ دنیا کی چیز اسے ملتی ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا: «وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ»[ 9-التوبة:58 ] ”اور بعض لوگ ان میں سے ایسے ہیں کہ صدقات کی تقسیم میں تجھ پر طعن کرتے ہیں۔ اگر ان کو کچھ مل جاتا ہے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہیں ملتا تو فورا بگڑ بیٹھتے ہیں۔“ پھر دنیا میں لوگوں کی پسندیدہ چیزیں بھی مختلف ہیں کوئی مال کا بھوکا ہے، کوئی عہدہ کا،کوئی حسینوں کا غلام ہے، کوئی جائیداد اور کوٹھیوں کے چکر میں گرفتار ہے۔ ➋ انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ»[51-الذاريات:56] ”اور میں نے جن و انس کو اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔“ اس لئے اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہیے دنیا کمانا یا اس کی خواہش رکھنا منع نہیں شرط صرف یہ ہے کہ آدمی ان چیزوں کا غلام نہ بنے بلکہ اللہ کا غلام بنے یہ چیزیں اس کو اللہ کی غلامی سے غافل نہ کر دیں۔ بلکہ وہ دنیا بھی اسی لیے حاصل کرے کہ وہ اللہ کی بندگی میں اس کی معاون ہو گی۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے: «وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ»[22-الحج:11] ”اور لوگوں میں سے ایک وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کنارے پر (رہ کر) کرتا ہے سو اگر اسے بھلائی حاصل ہو جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہو جاتا ہے اگر اسے آزمائش آ جائے تو اپنے چہرے پر پھر جاتا ہے۔ یہ دنیا اور آخرت میں نامراد ہو گیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 104
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2887
´اشرفی کا بندہ تباہ ہوا` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:\" تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اشرفی کا بندہ اور روپے کا بندہ اور کمبل کا بندہ تباہ ہوا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2887]
فوائد و مسائل ❀ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تعس عبدالدينار وعبدالدرهم وعبد القطيفة» ”درہم و دینار اور چادر کا بندہ تباہ ہو گیا۔“[ابن ماجه، كتاب الزهد، باب فى المكثرين 4135، بخاري الجهاد و السير، باب الحراسته فى الغزو فى سبيل الله 2886] ↰ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عبد کی اضافت اسماء میں جب غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے تو یہ لفظ عبادت کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ناموں کو بدل دیا تھا کیونکہ یہ شرکیہ نام ہیں۔ اگر انھیں شرکیہ نہ سمجھا جائے تو پھر ان میں شرک کی بو ضرور موجود ہے۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 20
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4136
´مالداروں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور شال کا بندہ، وہ ہلاک ہو اور (جہنم میں) اوندھے منہ گرے، اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4136]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دنیا کا لالچ مذموم ہے۔
(2) جب محبت ونفرت کی بنیاد محض دنیوی مفاد پر ہوجائے تو خلوص باقی نہیں رہتا۔ اس صورت میں خلیفۃالمسلمین یا اس کے نائب سے بیعت بھی اللہ کی رضا کے لیے اور اسلامی سلطنت کی حفاظت اور خدمت کے لیے نہیں ہوتی۔ اس طرح یہ عظیم نیکی بھی تمام برکات سے محروم ہوکر برائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
(3) دینی جماعتوں اور تنظیموں سے تعلق اللہ کی رضا اور ثواب کے لیے ہونا چاہیے۔ اسی نیت سے عہدہ اور ذمہ داری قبول کی جائےاگر محسوس ہو کہ محنت کرنے کے باوجود جماعت میں اہلیت تسلیم نہیں کی جارہی تو اکابر سے ناراض ہوکر جماعت سے الگ نہ ہوجائے۔ ہاں اگر یہ محسوس کیا جائے کہ جماعت یا تنظیم کے عہدیدار صحیح انداز سے کام نہیں کررہے اور توجہ دلانے کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہیں تو خاموشی کے ساتھ تنظیم سے الگ ہوجائے۔
(4) درہم و دینار کے بندے سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا کے مال ودولت کی اتنی خواہش رکھتا ہے کہ اس کی تمام سر گرمیوں کا محور حصول دولت بن کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح وہ دولت سے خدمت لینے کی بجائے دولت جمع کرنے اور سنبھالنے میں مصروف رہتا ہے گویا دولت اس کا آقا یا معبود ہے اور وہ غلام یا پجاری۔
(5) دولت کے پجاری کے لیے بد دعا کی گئی ہے کہ وہ تباہ ہوجائے۔ منہ کے بل گرنے اور سر کے بل اوندھا ہوجانے سے یہی مراد ہے۔ کانٹا نہ نکالےجانے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسا رہے اور اس کی مدد اور نجات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4136
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2375
´درہم و دینار کے پجاری ملعون ہیں۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دینار کا بندہ ملعون ہے، درہم کا بندہ ملعون ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2375]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے، اور روایت عنعنہ سے ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2375
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2887
2887. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہلاک ہوا درہم ودینار سے منقش چادر کا بندہ، اگر اسے مل جائے توراضی، نہ ملے تو ناراض۔ اللہ کرے یہ ہلاک ہوجائے۔ سرنگوں ہوکر گر پڑے۔ اگر اسے کانٹا چبھے توکوئی نہ نکالے۔ اور اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس نے جہاد کے لیے گھوڑے کی باگ پکڑی ہے اس کا سر پراگندہ اور پاؤں خاک آلودہ ہیں۔ اگر وہ پاسبان ہے تو پاسبانی کرے اور اگروہ لشکر کے پیچھے حفاظت پر مامور ہوتو لشکر کے پیچھے رہے۔ اگر وہ (جانے کی) اجازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔“ امام بخاری ؒنے (قرآن مجید کے لفظ) تعساً کی بابت فرمایا: گویا کہ یوں فرمایا جارہاہے: ”اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔“ طوبى 'فعليٰ کے وزن پر ہے، ہر اچھی پاکیزہ چیز پر بولا جاتا ہے۔ اس میں جوواؤہے، یہ دراصل "یاء" تھا، یعنی طُيبي اس(یاء) کوواؤ سے بدلاگیا ہے، اور یہ يطيبُ سےہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2887]
حدیث حاشیہ: حدیث ہذا میں ایک غریب مخلص مرد مجاہد کے چوکی پہرہ دینے کا ذکر ہے‘ یہی باب سے وجہ مطابقت ہے‘ اللہ والے بزرگ ایسے ہی پوشیدہ غریب نامعلوم غیر مشہور بزرگ ہوتے ہیں جن کی دعائیں اللہ قبول کرتا ہے مگر یہ مقام ہر کسی کو نصیب نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2887
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6435
6435. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، بہترین سیاہ اونی کپڑوں کے بندے تباہ ہو گئے۔ اگر انھیں دیا جائےتو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6435]
حدیث حاشیہ: زمانہ رسالت میں ایسے بھی لوگ تھے جو دنیاوی مفاد کے تحت مسلمان ہو گئے تھے ان ہی کا یہ ذکر ہے ایسا اسلام بیکار محض ہے۔ جس سے محض دنیا حاصل کرنا مقصود ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6435
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2887
2887. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہلاک ہوا درہم ودینار سے منقش چادر کا بندہ، اگر اسے مل جائے توراضی، نہ ملے تو ناراض۔ اللہ کرے یہ ہلاک ہوجائے۔ سرنگوں ہوکر گر پڑے۔ اگر اسے کانٹا چبھے توکوئی نہ نکالے۔ اور اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس نے جہاد کے لیے گھوڑے کی باگ پکڑی ہے اس کا سر پراگندہ اور پاؤں خاک آلودہ ہیں۔ اگر وہ پاسبان ہے تو پاسبانی کرے اور اگروہ لشکر کے پیچھے حفاظت پر مامور ہوتو لشکر کے پیچھے رہے۔ اگر وہ (جانے کی) اجازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔“ امام بخاری ؒنے (قرآن مجید کے لفظ) تعساً کی بابت فرمایا: گویا کہ یوں فرمایا جارہاہے: ”اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔“ طوبى 'فعليٰ کے وزن پر ہے، ہر اچھی پاکیزہ چیز پر بولا جاتا ہے۔ اس میں جوواؤہے، یہ دراصل "یاء" تھا، یعنی طُيبي اس(یاء) کوواؤ سے بدلاگیا ہے، اور یہ يطيبُ سےہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2887]
حدیث حاشیہ: 1۔ اپنے کام سے دل جمی رکھنے والے واقعی گم نام اور خاموش طبع ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوکرسی کی چاہت اور شہرت کی طلب نہیں ہوتی۔ دنیاداروں کے ہاں ایسےشخص کو کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی لیکن اللہ کے ہاں ان کا بہت اونچا مقام ہوتا ہے۔ انھیں اپنے کام سے غرض ہوتی ہے۔ جہاں ان کی ڈیوٹی لگائے جائے وہ اسے پوری طرح انجام دیتے ہیں۔ اگرچہ خلاف طبع امور کیوں نہ پیش آئیں وہ خدمت کی بجا آوری سے سرمو انحراف نہیں کرتے۔ 2۔ امام بخاری ؒنے اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت ثابت کی ہے کہ اس میں ایک غریب،مخلص مرد مجاہد کے پہرہ دینے کا ذکر ہے جسے اللہ اور اس کے رسول مقبول ﷺنے پسندفرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2887
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6435
6435. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، بہترین سیاہ اونی کپڑوں کے بندے تباہ ہو گئے۔ اگر انھیں دیا جائےتو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6435]
حدیث حاشیہ: مال و دولت کی بندگی یہ ہے کہ اس کی چاہت اور طلب میں بندہ ایسا گرفتار ہو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور حلال و حرام کی حدود کا بھی پابند نہ رہے۔ جو لوگ درہم و دینار اور بہترین کپڑوں کے پجاری ہیں اور انہوں نے مال و دولت ہی کو اپنا معبود مطلوب بنا لیا ہے، اس حدیث میں ان سے بے زاری کا اعلان اور ان کے خلاف بددعا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی خیر و برکت سے محروم اور دور رہیں۔ قرآن کریم میں منافقین کا وصف ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ''اگر انہیں دنیا میں کچھ دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ '' (التوبة: 58) ان لوگوں کو مال و دولت کے نشے نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ فکر آخرت سے آزاد اور انہیں صرف دنیا بنانے اور مال جمع کرنے کی فکر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی مفادات سمیٹنے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6435