وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من الكبائر شتم الرجل والديه» قيل: وهل يسب الرجل والديه؟ قال: «نعم يسب أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه» متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔“ کہا گیا کہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! کہ وہ کسی آدمی کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی گلوچ کرتا ہے اور یہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1258]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأدب، باب لا يسب الرجل والديه، حديث:5973، ومسلم، الأيمان، باب الكبائر وأكبرها، حديث:90.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1258
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب لا يسب الرجل والديه، حديث:5973، ومسلم، الأيمان، باب الكبائر وأكبرها، حديث:90.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کام کے لیے سبب بننا گویا خود اس کام کو انجام دینا ہے۔ بالفاظ دیگر حرام چیز کے اسباب بھی حرام ہوتے ہیں‘ اس لیے ایسا کام کرنا یاایسی بات کرنا جس کے نتیجے میں والدین کو گالی دی جائے یا انھیں تکلیف پہنچے‘ حرام ہے‘ لہٰذا اگر اپنے والدین کو گالی سے بچانا ہے تو دوسرے کے والدین کو گالی نہ دو اور نہ انھیں برا بھلا کہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1258
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1258
تخریج: [بخاري الادب باب لايسب الرجل والديه 5973]، [مسلم الايمان 263]
فوائد: ➊ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو ”اف“ کہنے اور جھڑکنے سے منع فرمایا: «فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا»[17-الإسراء:23] ”تم ان کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو اور ان کو عزت سے مخاطب کرو۔“ گالی دینا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔ ➋ والدین کو اگرچہ خود گالی نہ دے اور نہ ہی تکلیف دے مگر ایسا کام کرے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ کوئی انہیں گالی دے یا تکلیف پہنچائے تو یہ حرام ہے۔ ➌ جس کام کے نتیجہ میں خطرہ ہو کہ کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ وہ کام بھی ناجائز ہے مثلاً کسی کے والدین کو گالی دینے سے خطرہ ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی دے گا اگرچہ یہ ضروری نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے والدین کو گالی نہ دے فقہاء کی اصطلاح میں اسے سد ذرائع کہتے ہیں۔ سد ذرائع کی ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: «وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ»[6-الأنعام:108] ”اور جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو نہیں تو بے سمجھی سے ضد میں آ کر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔“ ایک اور دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت سے (اسلام میں)آئی ہوئی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کے متعلق حکم دیتا اور اسے گرا دیا جاتا اس کا جو حصہ اس سے نکال دیا گیا ہے میں اس میں داخل کر دیتا اور اسے عین زمین کے ساتھ ملا دیتا اس کا ایک مشرقی دروازہ بنا دیتا اور ایک مغربی اور اسے ابراہیم عیہ السلام کی بنیاد پر پہنچا دیتا۔ [بخاري / الحج 42] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے کعبہ کو نہیں گرایا کہ کعبہ کو گرانے سے یہ نئی نئی مسلمان ہونے والی قوم شبهات میں مبتلا نہ ہو جائے حالانکہ کعبہ کو گرا کر دوبارہ بنانے میں بہت سے فائدے تھے۔ البتہ ایک بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے صرف وہ کام چھوڑ سکتا ہے جو ضروری نہ ہو بلکہ اختیاری ہو۔ اگر فرض کی ادائیگی سے کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی مثلاً اگر کوئی شخص نماز کی دعوت دینے سے بدزبانی شروع کر دے تو نماز کی دعوت ترک نہیں کی جائے گی۔ صرف اختیاری کام چھوڑے جا سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک عنوان قائم کیا ہے باب «من ترك بعض الاختيار مخافة ان يقصر فهم بعض الناس فيقوا فى اشد منه» یعنی اس شخص کا بیان جو بعض اختیاری چیزیں (جو ضروری نہ ہوں) اس خوف سے چھوڑ دے کہ بعض لوگوں کی سمجھ اس سے قاصر رہے گی۔ تو وہ اس سے بھی سخت چیز میں جا پڑیں گے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 87
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5973
´کبیرہ گناہ` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ" قِيلَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ:" يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 5973]
� لغوی توضیح: «الْمُوبِقَاتِ» ہلاک کرنے والے۔ «التَّوَلِّي» فرار اختیار کرنا، بھاگ جانا۔ «يَوْمَ الزَّحْفِ» جنگ کے روز، جس روز دشمن کے ساتھ مڈبھیڑ ہو۔ «وَقَذْفُ» تہمت لگانا۔ «الْمُحْصَنَاتِ» پاکدامنہ عورتوں پر۔
فہم الحدیث: ان احادیث میں کبیرہ (یعنی بڑے) گناہوں کا ذکر ہوا ہے۔ کبیرہ گناہ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی حد مقرر ہو، یا جس پر جہنم کی وعید ہو، یا جس پر لعنت یا غضب کا ذکر ہو۔ [مجموع الفواي لابن تيمية 650/11] یہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ اور اگر کوئی ان کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو باقی چھوٹے گناہ اللہ تعالیٰ مختلف نیک اعمال کے ذریعے بھی معاف فرما دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ «اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیْآتِ»[هود: 114]”نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔“ اسی طرح ایک حدیث میں وضوء کے ذریعے بھی گناہ جھڑنے کا ذکر ہے۔ [مسلم: كتاب الطهارة: 244]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 57
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5973
5973. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرے۔“ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کوئی شخص اپنے والدین پر کیسے لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کسی کے والد کو گالی دے گا تو وہ اس کے والد کو برا بھلا کہے گا اور اگر وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کی ماں پر سب وشتم کرے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5973]
حدیث حاشیہ: بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کی صدا جیسے کہے ویسے سنے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5973
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5973
5973. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرے۔“ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کوئی شخص اپنے والدین پر کیسے لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کسی کے والد کو گالی دے گا تو وہ اس کے والد کو برا بھلا کہے گا اور اگر وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کی ماں پر سب وشتم کرے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5973]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی کو"اکبر الکبائر" قرار دیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 5976) والدین کو گالی دینا بھی نافرمانی ہی کی ایک قسم ہے اگرچہ معاشرے میں والدین کو گالی دینا بعید از عقل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائل نے ازراہ تعجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کوئی شخص والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے تو آپ نے فرمایا: کسی دوسرے کے والدین کو گالی دینا اپنے والدین ہی کو گالی دینا ہے کیونکہ جوابی طور پر وہ اس کے والدین کو گالی دے گا، گویا اس نے خود اپنے والدین کو گالی دی ہے کیونکہ یہ اس برے کام کا سبب بنا ہے۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ حرام فعل کا سبب بھی حرام ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ”اے مسلمانو! یہ لوگ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے ہیں تم انھیں گالیاں نہ دو ورنہ یہ لوگ جہالت کی وجہ سے چڑ کر اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے۔ “(الأنعام6: 108) اس سے معلوم ہوا کہ والدین کو گالی دینے کا سبب بننا بہت بڑا جرم ہے تو جو بدبخت خود اپنے والدین کو لعن طعن کرے یا گالیاں دے وہ کس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ أعاذنا الله تعالی
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5973