حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف ترک روزے کو بیان کیا ہے، حالانکہ حالتِ حیض میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کی حیثیت الگ الگ ہے، کیونکہ حائضہ عورت نماز کی اہل تو اس لیے نہیں رہتی کہ اس میں طہارت شرط ہے اور حیض کی حالت میں طہارت کا فقدان ہوتا ہے، جس کی بنا پر حائضہ نماز کی مکلف ہی نہیں۔
لیکن روزے کی حالت اس سے مختلف ہے۔
روزے میں طہارت شرط نہیں، اس کے باوجود شریعت نے حالت حیض کو روزے کے لیے مانع قراردیا ہے۔
چونکہ نماز کے حق میں حائضہ کی اہلیت ہی باقی نہیں رہتی، اس لیے حیض کے بعد طہارت کے ایام میں اس کی قضا لازم نہیں، لیکن روزے کے حق میں اس کی اہلیت باقی تھی، لہذا یہ یکسر معاف نہیں، بلکہ ایام طہارت میں اس کی قضا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے نماز اورروزے کے ترک کو ایک باب میں جمع نہیں کیا، بلکہ نماز کے ترک کا آئندہ عنوان قائم کریں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے محدث ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اپنی عادت کے مطابق مشکل کو واضح کیا اور واضح بات کو آئندہ کے لیے ترک کردیا، کیونکہ ترک نماز کی بات شرط طہارت کی وجہ سے واضح تھی اور روزے میں چونکہ طہارت شرط نہیں اور اس کا ترک محض تعبدی تھا، س لیے امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق صراحت سے لکھا۔
(فتح الباري: 526/1) تعبدی کا مطلب یہ ہے کہ جس کی کوئی معقول وجہ سامنے نہ ہو، محض اللہ کا حکم سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے، کیونکہ حائضہ کا نماز ترک کرنا معقول المعنی ہے کہ اس کے لیے طہارت شرط ہے، لیکن روزے میں طہارت شرط نہیں، لہذا بحالت حیض اس کا ترک کرنا محض حکم الٰہی کے پیش نظر ہے۔
2۔
جنبی کاروزہ صحیح اور حیض ونفاس والی عورت کا غیر صحیح اس لیے ہے کہ ان کا حدث جنبی کے حدث سے زیادہ اغلظ
(کہیں زیادہ شدید) ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے۔
(فتح الباري: 529/1) پھر حدث کے مراتب پر بھی نظر رہنی چاہیے، مثلاً:
۔
ایک عدم طہارت حدث اصغر
(بلا وضو) کی ہے۔
اس کی موجودگی میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی، البتہ قرآن مجید کی تلاوت ہوسکتی ہے اور مسجد میں داخل ہونا بھی مباح ہے۔
۔
اور دوسری عدم طہارت حدث اکبر
(جنابت) کی ہے۔
اس کی وجہ سے تلاوت بھی ممنوع اور مسجد میں داخل ہونا بھی ناجائز ہے۔
مگر اس کی موجودگی میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
۔
تیسری عدم طہارت حالتِ حیض ونفاس کی ہے جو شدت وغلظت میں جنابت سے بھی آگے ہے۔
اس کی موجودگی میں نماز، روزہ، تلاوت قرآن اور دخول مسجد سب کچھ منع ہے۔
پھر اس دوران میں روزہ نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اولاً عورتیں پیدائشی طور پر کمزور اورناتواں ہوتی ہیں، پھر حیض ونفاس کا خون جاری ہونے سے ان کی نقاہت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ایسی حالت میں اگرروزہ ضروری قرار دیا جاتا تو ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث تھا، اس لیے انھیں مستثنیٰ قراردیا گیا، لیکن جنبی آدمی کو روزہ رکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی، اس لیے اسے روزہ رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔
طبی لحاظ سے بھی ایام حیض میں روزہ نقصان دہ ہے کیونکہ حائضہ کی صحت کے لیے حیض کا ادرار
(جاری رہنا) ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس دوران میں ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں۔
جن کی وجہ سے حیض بسہولت جاری رہتا ہے، جبکہ روزے سے خشکی بڑھتی ہے اور خون کے جاری ہونے میں دقت پیداہوتی ہے، لہذا طبی لحاظ سے بھی حائضہ کے لیے روزہ مفید نہیں۔
3۔
حیض ونفاس کی حالت میں فوت شدہ نمازیں ادا نہیں کی جاتیں جبکہ روزے بعد میں رکھے جاتے ہیں، اس کی مختلف توجہیات بیان کی گئی ہیں:
۔
شریعت کاحکم ہے اور اس کا اتباع ضرروری ہے، خواہ اس کے فرق کا ادراک ہویا نہ ہو۔
خود حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمیں قضائے صوم کاحکم دیا جاتا تھا، قضائے صلاۃ کے متعلق نہیں کہا جاتا تھا۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 7763(335)
۔
نماز کا وجوب بار بار اور زیادہ ہوتا ہے، اتنی زیادہ نمازوں کی قضا میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے معاف ہے، لیکن روزے میں ایسا نہیں ہوتا، وہ سال بھر میں چند ہی قضا ہوتے ہیں۔
(فتح الباری: 547/1)
۔
طہارت کے بعد وقتی نمازوں کے ساتھ حالت حیض ونفاس کی قضا نمازوں کی ادائیگی کا حکم بھی ہوتا توعمل ڈبل ہوجاتا، اس کی ادائیگی میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا، البتہ روزے اس کے برعکس ہیں۔
سات یا آٹھ روزے سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بسہولت رکھے جاسکتے ہیں۔
واللہ أعلم۔