الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
1. باب الأدب
1. ادب کا بیان
حدیث نمبر: 1238
وَعَنْ اَلنَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ ‏- رضى الله عنه ‏- قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اَللَّهِ ‏- صلى الله عليه وسلم ‏-عَنْ اَلْبِرِّ وَالْإِثْمِ? فَقَالَ: {اَلْبِرُّ: حُسْنُ اَلْخُلُقِِ, وَالْإِثْمُ: مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ, وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ اَلنَّاسُ} أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ [1]‏.
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو ناپسند سمجھے کہ لوگ اس پر مطلع ہو جائیں۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1238]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تفسير البر والإثم، حديث:2553.»

   صحيح مسلمالبر حسن الخلق الإثم ما حاك في صدرك وكرهت أن يطلع عليه الناس
   جامع الترمذيالبر حسن الخلق الإثم ما حاك في نفسك وكرهت أن يطلع عليه الناس
   بلوغ المرامالبر حسن الخلق والإثم ما حاك في صدرك وكرهت ان يطلع عليه الناس

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1238 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1238  
تخریج:
«أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تفسير البر والإثم، حديث:2553.»
تشریح:
1. اس حدیث میں نیکی اور گناہ کی حقیقت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ نیکی یہ ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے‘ ان سے دوستی رکھے‘ ان پر مشقت نہ ڈالے‘ ان کے کام آئے‘ ان کے بوجھ اٹھائے‘ ان سے برا سلوک نہ کرے‘ ان کے ساتھ دست درازی نہ کرے‘ بلاوجہ آپے سے باہر نہ ہو جائے‘ حتی الوسع درگزر اور عفو سے کام لے‘ مؤاخذہ اور گرفت کا رویہ اختیار نہ کرے وغیرہ۔
اور گناہ یہ ہے کہ دل میں کھٹک اور شبہ رہے کہ نہ جانے یہ کام اللہ کی نظر میں کیسا ہے‘ دل میں تسلی و تشفی نہ ہو اور جس کے کرنے سے دل میں یہ خطرہ پیدا ہو کہ اگر لوگوں کو اس کا علم ہوگیا تو مجھے ملامت کریں گے اور برا بھلا کہیں گے۔
2. اس دنیا میں نیکی اور گناہ کی کشمکش جاری ہے اور جاری رہے گی۔
نیکی اور برائی کو پہچاننے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ نواس میں واؤ پر تشدید ہے اور سمعان میں سین پر فتحہ اور کسرہ دونوں درست ہیں۔
نواس بن سمعان بن خالد کلابی عامری۔
شامی صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ ان کے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی اور انھوں نے آپ کو جوتوں کا ہدیہ پیش کیا۔
آپ نے اسے قبول کیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1238   

  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1238  
تخریج:
[مسلم، البر والصلة 6516]،
[بلوغ المرام: 1238]،
[تحفة الاشراف 20/9]

فوائد:
➊ حسن خلق سے مراد عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے، کھلے چہرے اور میٹھی زبان کے ساتھ ملاقات کی جائے گی سختی اور درشتی سے پرہیز کیا جائے مگر یہ ایک محدود مفہوم ہے حقیقت یہ ہے کہ حسن خلق اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو اس طرح اوڑھنا بچھونا بنا لینے کا نام ہے کہ وہ آدمی کی پیدائشی عادت کی طرح بن جائیں اور کسی مشقت کے بغیر خود بخود ادا ہوتے چلے جائیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:
«وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ» [68-القلم:4] یقیناً آپ عظیم خلق پر ہیں۔
سعد بن ہشام بن عامر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق بتائیں تو انہوں نے فرمایا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ عرض کیا کیوں نہیں، فرمایا: «فان خلق نبي الله كان القرآن» نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن ہی تھا۔ [مسلم، مسافرين 139]
یعنی آپ نے قرآن کے آداب اس طرح اختیار کر لئے تھے اس کے احکام پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب اس طرح تھا کہ قرآن کی ہر بات آپ کی طبعی عادت بن گئی تھی۔
حسن خلق کے اس مفہوم میں ارکان اسلام، حقوق اللہ، حقوق العباد، صبر، شکر، وفائے عہد، صدق، امانت، عدل، صدقہ، جہاد، احسان عرض سبھی کچھ شامل ہے اور اس کی جامع چند آیات یہ ہیں:
«لَّيْسَ الْبِرَّ . . . . . . . .» [2-البقرة:177]
اور فرمایا:
«وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ . . . . . . .» [25-الفرقان:63]
اور فرمایا:
«التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ . . . . . . .» [9-التوبة:112]
اور فرمایا:
«قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ٭ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ٭ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ٭ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ٭ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [23-المؤمنون:1 - 11]
قرآن مجید مترجم مع تفسیر سے تفصیل ملاحظہ کر لیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامتیں بیان فرمائی ہیں پہلی یہ کہ وہ سینے میں کھٹکتا ہے آدمی کو اس پر تسلی نہیں ہوتی۔ ایک خیال یہ آتا ہے کہ یہ کام کر لوں اس کی صاف ممانعت تو کہیں نہیں ملتی دوسرا خیال آتا ہے کہ نہیں یہ کام اچھا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے۔ لوگوں میں بدنامی ہو گی یہ کیفیت انسان کو بےچین رکھتی ہے۔ اسی کا نام گناہ ہے حسن بن على رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث حفظ کی:
«دع ما يريبك إلى ما لا يريبك فإن الصدق طمانينة وإن الكذب ريبة» [صحيح الترمذي، النسائي]
جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان (کا باعث) ہے اور جھوٹ بے چینی (کا باعث) ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے: [بلوغ المرام حديث 1384]
گناہ کی دوسری علامت یہ بیان فرمائی کہ تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کام کا علم ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ سبھی لوگوں کا کسی چیز کو برا جاننا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کام گناہ ہے اسی لئے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اچھے کام لوگوں کو معلوم ہوں اور برے کام معلوم نہ ہوں۔ ریاء کی بیماری بھی یہیں سے پیدا ہوتی ہے۔
➌ جب وہ کام گناہ ہیں جن میں شبہ ہو، جن کے جائز اور ناجائز ہونے میں واضح حکم موجود نہ ہو اور جن کے متعلق دل میں کھٹکا ہو تو جو کام صاف الفاظ میں منع کئے گئے ہیں۔ ان کے گناہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟
➍ اگر کسی کام کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہو مگر لوگ جہالت کی وجہ سے اسے ناپسند کریں تو لوگوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مسلمان کی شان یہ ہے:
«لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ» [5-المائدة:54]
وہ کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔
➎ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں اچھے اور برے کی پہچان رکھ دی ہے۔ اسی لئے عربی میں نیکی کو معروف کہا جاتا ہے کہ اس کام کا اچھا ہونا سب کے ہاں پہچانی ہوئی چیز ہے۔ اور برائی کو منکر کہتے ہیں جس کا معنی ہے، نہ پہچانی ہوئی چیز یعنی فطرت انسانی اس کام کو قبول نہیں کرتی اور نہ پہچانتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 31   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2389  
´نیکی اور بدی کا بیان۔`
نواس بن سمعان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور بدی کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے اور لوگوں کا مطلع ہونا تم اس پر ناگوار گزرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2389]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اسلام میں اچھے اخلاق کا درجہ بہت اونچا ہے،
دوسروں کے کام آنا،
ہراچھے کام میں لوگوں کا تعاون کرنا،
کسی کوتکلیف نہ پہنچانایہ سب ایسی اخلاقی خوبیاں ہیں جو اسلام کی نظرمیں نیکیاں ہیں،
اس حدیث میں گناہ کی دوعلامتیں بیان کی گئی ہیں،
ایک علامت یہ ہے کہ گناہ وہ ہے جو انسان کے دل میں کھٹکے اوردوسری علامت یہ ہے کہ دوسروں کے اس سے باخبرہونے کو وہ ناپسند کرے،
گویا انسانی فطرت صحیح بات کی طرف انسان کورہنمائی کرتی ہے،
اوربرائیوں سے روکتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2389   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6517  
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سال ٹھہرارہا اور مجھے سوالات کرنے کے سواکوئی چیزہجرت کرنے سے مانع نہیں تھی،ہم میں سے کوئی ایک جب ہجرت کرلیتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرتا تھا تو میں نے آپ سے براور اثم کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا،"برحسن خلق سے تعبیر ہے اوراثم جو تیرے دل میں کھٹکا پیدا کرے اور تم یہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6517]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت نواس بن سمعان،
بنو کلاب سے تعلق رکھتے تھے،
وہ اپنے وطن سے آپ سے ملاقات کے لیے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے،
پھر ایک سال تک مدینہ میں ایک مسافر کی حیثیت سے ٹھہرے رہے،
تاکہ آپ سے سوال کرنے میں سہولت اور آسانی رہے،
کیونکہ جو لوگ اپنا وطن چھوڑ کر یعنی مہاجرین مدینہ میں اقامت اختیار کر لیتے تھے،
وہ سوال کرنے سے گریز کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ باہر کے لوگ یا جنگلی لوگ آپ سے سوالات کریں،
تاکہ ہمیں بھی دین کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں،
بعد میں انہوں نے انصار سے دوستانہ قائم کر لیا ہو گا،
اس لیے ان کو کلابی کی بجائے انصاری کہا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6517