´زرد اور مٹیالا رنگ حیض کے دنوں کے علاوہ ہو (تو کیا حکم ہے؟)`
«. . . عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: " كُنَّا لَا نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ شَيْئًا " . . . .»
”. . . ام عطیہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ` ہم زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ الصُّفْرَةِ وَالْكُدْرَةِ فِي غَيْرِ أَيَّامِ الْحَيْضِ:: 326]
�
تشریح: یعنی جب حیض کی مدت ختم ہو جاتی تو مٹیالے یا زرد رنگ کی طرح پانی کے آنے کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔
◈ اس حدیث کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«والحديث يدل على ان الصفرة والكدرة بعدالطهر ليستا من الحيض واما فى وقت الحيض فهما حيض» [نيل الاوطار] یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طہر کے بعد اگر مٹیالے یا زرد رنگ کا پانی آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔ لیکن ایام حیض میں ان کا آنا حیض ہی ہو گا۔
بالکل برعکس: صاحب تفہیم البخاری (دیوبند) نے محض اپنے مسلک حنفیہ کی پاسداری میں اس حدیث کا ترجمہ بالکل برعکس کیا ہے، جو یہ ہے ”آپ نے فرمایا کہ ہم زردا اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے (یعنی سب کو حیض سمجھتے تھے۔)“
الفاظ حدیث پر ذرا بھی غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ ترجمہ بالکل برعکس ہے، اس پر خود صاحب تفہیم البخاری نے مزید وضاحت کر دی ہے کہ
”ہم نے ترجمہ میں حنفیہ کے مسلک کی رعایت کی ہے۔
“ [تفهيم البخاري، ج2، ص: 44] اس طرح ہر شخص اگر اپنے اپنے مزعومہ مسالک کی رعایت میں حدیث کا ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ مگر ہمارے معزز فاضل صاحب تفہیم البخاری کا ذہن محض حمایت مسلک کی وجہ سے ادھر نہیں جا سکا۔ تقلید جامد کا نتیجہ یہی ہونا چاہئیے۔
«انا لله وانااليه راجعون» ◈ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
«اي من الحيض اذا كان فى غيرزمن الحيض امافيه فهومن الحيض تبعا وبه قال سعيد بن المسيب وعطاءواللهث وابوحنيفة ومحمدوالشافعي واحمد» [قسطلاني] یعنی غیر زمانہ حیض میں مٹیالے یا زرد رنگ والے پانی کو حیض نہیں مانا جائے گا، ہاں زمانہ حیض میں آنے پر اسے حیض ہی کہا جائے گا۔ سعید بن مسیب اور عطاء اور لیث اور ابوحنیفہ اور محمد اور شافعی اور احمد کا یہی فتویٰ ہے۔
خدا جانے صاحب تفہیم البخاری نے ترجمہ میں اپنے مسلک کی رعایت کس بنیاد پر کی ہے؟
«اللهم وفقنا لماتحب وترضيٰ آمين»