تخریج: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب الشهداء العدول، حديث:2641.»
تشریح:
1. اس اثر سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ گویا نبوت کی تکمیل ہوگئی۔
اب نہ کوئی نیا نبی و رسول آئے گا اور نہ آسمان سے وحی نازل ہو گی۔
اب اگر کوئی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو وہ سراسر دروغ گو‘ کذاب‘ دجال‘ مفتری اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
2.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو لوگوں کے بارے میں معلومات کا ذریعہ وحی الٰہی تھی مگر اب ایک شخص کے رازوں اور بھیدوں کی جستجو اور تفتیش کیے بغیر اور ان کا سراغ لگائے بغیر ہم اس کے ظاہری حالات و اعمال کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔
اگر اس کے ظاہری اعمال و احوال شک و شبہ سے محفوظ ہیں تو وہ قابل اعتبار ہے اور اس کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں۔