تخریج: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب كيف القضاء، حديث:3582، والترمذي، الأحكام، حديث:1331، وأحمد:1 /143، 150، وابن حبان (الموارد)، حديث:1539، وحديث ابن عباس: أخرجه الحاكم:4 /93 وصححه ووافقه الذهبي وهو حديث حسن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث کے آخر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو بطور شاہد پیش کیا ہے‘ اسے ہمارے فاضل محقق نے حسن قرار دیا ہے۔
بنابریں محققین کی تفصیلی بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(إرواء الغلیل: ۸ /۲۲۶. ۲۲۸‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۰۳‘ ۱۰۴) 2. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قاضی کو فریقین کے دلائل سماعت کرنے کے بعد فیصلہ دینا چاہیے اگر وہ اس کے خلاف عمل کرے گا تو یہ حرام ہوگا۔
3.فریقین کی بات اور دلائل سماعت کر کے فیصلہ دینا واجب ہے محض ایک فریق کے دلائل سن کر فیصلہ کر دینا باطل ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
4. رہا یہ سوال کہ اگر فریق ثانی خاموش رہے‘ عدالت کے روبرو کچھ نہ کہے‘ یعنی اقراری ہو نہ انکاری یا فریق ثانی عدالت کی طلبی کے باوجود عدالت میں بیان دینے کے لیے حاضر ہی نہ ہو یا لیت و لعل سے کام لے تو کیا ایسے فریق کے خلاف یک طرفہ ڈگری دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ قرین صواب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ پھر عدالت یک طرفہ فیصلہ دینے کی مجاز ہوگی۔
واللّٰہ أعلم۔