قربانی، ذبیحوں، کھانے پینے، عقیقے اور جانوروں سے نرمی کرنے کا بیان
1274. بیویوں کے ساتھ دلگی
حدیث نمبر: 1904
- (قُوما فاغسِلا وجوهَكُما، يعني: عائشة وسودة).
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں خزیرہ (ایک کھانا جو قیمے اور آٹے سے تیار کیا جاتا ہے) پکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور سودہ کے درمیان تشریف فرما تھے، میں نے سودہ سے کہا: کہ تم بھی کھاؤ۔ انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا: تم یہ ضرور کھاؤ گی یا میں تمہارے چہرے کو اس سے آلودہ کر دوں گی۔ اس نے پھر بھی انکار کیا۔ پس میں نے اپنا ہاتھ خزیرہ میں رکھا اور اس کے چہرے پر لگا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور اس کے لیے اپنی ران رکھ کر سودہ سے فرمایا: تم بھی اس کے چہرے پر لگا دو۔“ سو اس نے میرا چہرہ بھی آلودہ کر دیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے اور آواز دی: او عبداللہ! او عبداللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان ہوا کہ وہ ابھی داخل ہونے والے ہیں، اس لیے ان سے فرمایا کہ ”کھڑی ہو جاؤ اور اپنے چہرے دھو لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عائشہ اور سودہ تھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ہمیشہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرتی رہی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی ہیبت کا خیال رکھتے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الاضاحي والزبائح والاطعمة والاشربة والعقيقة والرفق بالحيوان/حدیث: 1904]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3131
قال الشيخ الألباني:
- (قُوما فاغسِلا وجوهَكُما، يعني: عائشة وسودة) . _____________________ أخرجه أبو بكر الشافعي في "الفوائد" (ق 18/1) : حدثني إسحاق بن الحسن بن ميمون الحربي: ثنا أبو سلمة: ثنا حماد: ثنا محمد بن عمرو عن يحيى بن عبد الرحمن أن عائشة قالت: أتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بخزيرة طبختها له، فقلت لسودة والنبي - صلى الله عليه وسلم - بيني وبينها، فقلت لها: كلي. فأبت، فقلت: لتأكلِنَّ أو لألطخن وجهك. فأبت، فوضعت يدي في الخزيرة فطليت بها وجهها! فضحك النبي - صلى الله عليه وسلم - فوضع فخذه (!) لها وقال لسودة: " الطخي وجهها " فلطخت وجهي، فضحك النبي - صلى الله عليه وسلم - أيضاً، فمرَّ عمر فنادى: يا عبد الله! يا عبد الله! فظن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه سيدخل فقال لهما ... (فذكر الحديث) . قالت عائشة: فما زلت أهاب عمر؛ لهيبة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إياه. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات من رجال "التهذيب "؛ غير إسحاق الحربي هذا، وهو ثقة؛ كما قال إبراهيم الحربي وعبد الله بن أحمد والدارقطني وهو مترجم في "تاريخ بغداد" (6/382) . وأبو سلمة اسمه موسى بن إسماعيل التبوذكي. وحماد هو ابن سلمة. __________جزء : 7 /صفحہ : 363__________ ويحيى بن عبد الرحمن هو ابن حاطب المدني، روى عن جمع من الصحابة منهم عائشة، رضي الله عنهم. ثم رأيت الحديث في "مسند أبي يعلى" (7/449/4476) ، حدثنا إبراهيم: حدثنا حماد به. وفيه: "فوضع بيده لها" مكان ".. فخذه.. " فوضح المراد. والحمد لله. وإبراهيم هذا هو ابن الحجاج السامي، قال الحافظ: "ثقة، يهم قليلاً". وقال الهيثمي في "المجمع " (4/316) : "رواه أبو يعلى، ورجاله رجال "الصحيح "؛ خلا محمد بن عمرو بن علقمة، وحديثه حسن ". * ¤