852. استفادہ کے بعد عاریہ اور منحہ کے طور پر لی ہوئی چیز واپس کر دینا
حدیث نمبر: 1236
-" بل عارية مؤداة".
یعلیٰ بن امیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تیرے پاس میرے قاصد آئیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر (یہ چیزیں جو میں) عاریۃ (دے رہا ہوں) ہلاک ہو گئیں تو ان کی قیمت کی ضمانت ہو گی یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ چیزیں بعینہ موجود رہیں تو واپسی کی ضمانت ہو گی اور تلف ہونے کی صورت میں کوئی ذمہ داری نہیں ہو گی۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1236]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 630
قال الشيخ الألباني:
- " بل عارية مؤداة ". _____________________ أخرجه أبو داود (2 / 266) والنسائي كما في " المحلى " (9 / 173) وابن حبان في " صحيحه " (1173) وأحمد (4 / 222) عن حبان بن هلال أنبأنا همام بن يحيى أنبأنا قتادة عن عطاء بن أبي رباح عن صفوان بن يعلى ابن أمية عن أبيه قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا أتتك رسلي فأعطهم ثلاثين درعا وثلاثين بعيرا. فقلت: يا رسول الله أعارية مضمونة أم عارية مؤداة؟ قال ... " فذكره. وقال ابن حزم: __________جزء : 2 /صفحہ : 206__________ " حديث حسن، ليس في شيء مما يروى في العارية خبر يصح غيره ". كذا قال: وفي الباب حديثان آخران ثابتان سأذكرهما بعد هذا. وإسناده صحيح رجاله كلهم ثقات وقد قال الحافظ في " بلوغ المرام ": " رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه ابن حبان ". قلت: وليس هو عند النسائي في " المجتبى " فالظاهر أنه في سننه الكبرى! وفي الحديث دلالة على وجوب أداء العارية ما بقيت عينها، فإذا تلفت في يد المستعير لم يجب عليه الضمان، لأنه فرق فيه بين الضمان والأداء، فأوجب الأداء دون الضمان. وهذا مذهب أبي حنيفة وابن حزم واختاره الصنعاني فقال: " والحديث دليل لمن ذهب إلى أنها لا تضمن العارية، إلا بالتضمين وهو أوضح الأقوال ". ويدل للاستثناء المذكور، حديث صفوان بن أمية الآتي وهو: " لا بل عارية مضمونة ". ¤