ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تھا کہ جمعہ کی پہلی اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ نے جمعہ کے دن ایک تیسری اذان کا حکم دیا، یہ اذان مقام زوراء پر دی گئی اور بعد میں یہی دستور قائم رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 916]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 916
حدیث حاشیہ: تیسری اس کو اس لیے کہا کہ تکبیر بھی اذان ہے۔ حضرت عثمان ؓ کے بعد سے پھر یہی طریقہ جاری ہو گیا کہ جمعہ میں ایک پہلی اذان ہوتی ہے پھر جب امام منبر پر جاتا ہے تو دوسری اذان دیتے ہیں پھر نماز شروع کرتے وقت تیسری اذان یعنی تکبیر کہتے ہیں گوحضرت عثمان ؓ کا فعل بدعت نہیں ہو سکتا اس لیے کہ وہ خلفاءراشدین میں سے ہیں۔ مگر انہوں نے یہ اذان ایک ضرورت سے بڑھائی کہ مدینہ کی آبادی دور دور تک پہنچ گئی تھی اور خطبہ کی اذان سب کے جمع ہونے کے لیے کافی نہ تھی، آتے آتے ہی نماز ختم ہو جاتی۔ مگر جہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں بموجب سنت نبوی صرف خطبہ ہی کی اذان دینا چاہیے اورخوب بلند آواز سے نہ کہ جیسا جاہل لوگ خطبہ کے وقت آہستہ آہستہ اذان دیتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے نکالا تیسری اذان بدعت ہے۔ یعنی ایک نئی بات ہے جو آنحضرت ﷺ کے عہد میں نہ تھی اب اس سنت نبوی کو سوائے اہل حدیث کے اور کوئی بجا نہیں لاتے۔ جہاں دیکھو سنت عثمانی کا رواج ہے (مولانا وحید الزماں) حضرت عبد اللہ بن عمر نے جو اسے بدعت کہا اس کی توجیہ میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: فیحتمل أن یکون ذالك علی سبیل الإنکار ویحتمل أن یرید أنه لم یکن في زمن النبي صلی اللہ علیه وسلم وکل مالم یکن في زمنه یسمی بدعة۔ (نیل الأوطار) یعنی احتمال ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے انکار کے طور پر ایسا کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ یہ اذان رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ تھی اور جو آپ کے زمانہ میں نہ ہو اس کو (لغوی حیثیت سے) بدعت یعنی نئی چیز کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ بلغني أن أھل المغرب الأدنی الآن لا تأذین عندھم سوی مرة۔ یعنی مجھے خبر پہنچی ہے کہ مغرب والوں کا عمل اب بھی صرف سنت نبوی یعنی ایک ہی اذان پر ہے۔ جمہورعلماءاہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے کہ سنت نبوی پر عمل بہتر ہے اور اگر حضرت عثمان ؓ کے زمانے جیسی ضرورت محسوس ہو تو مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان کہہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اذان عثمانی کو بھی مسنون قرار دیا ان کا قول محل نظر ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں: أَنَّ الِاسْتِدْلَالَ عَلَى كَوْنِ الْأَذَانِ الثَّالِثِ الَّذِي هُوَ مِنْ مُجْتَهَدَاتِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أمرا مسنونا ليس بتام ألا ترى أن بن عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ فَلَوْ كَانَ هَذَا الِاسْتِدْلَالُ تَامًّا وَكَانَ الْأَذَانُ الثَّالِثُ أَمْرًا مَسْنُونًا لَمْ يُطْلِقْ عَلَيْهِ لَفْظَ الْبِدْعَةِ لَا عَلَى سَبِيلِ الْإِنْكَارِ وَلَا عَلَى سَبِيلِ غَيْرِ الْإِنْكَارِ فَإِنَّ الْأَمْرَ الْمَسْنُونَ لَا يَجُوزُ أَنْ يُطْلَقَ عَلَيْهِ لَفْظُ الْبِدْعَةِ بِأَيِّ مَعْنًى كَانَ فَتَفَكَّرْز (تحفة الأحوذي)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 916
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:916
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے کتاب الأذان کے آغاز میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: ”اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟“ وہاں آپ نے امام ترمذی ؒ کی بیان کردہ ایک روایت کی تائید کی تھی کہ اذان اور تکبیر کے درمیان اتنا توقف ہونا چاہیے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو جائے اور ضرورت مند اپنی حاجت پوری کرے۔ مذکورہ عنوان قائم کر کے امام بخاری ؒ اسے سابقہ عنوان سے مستثنیٰ کرنا چاہتے ہیں کہ اذان خطبہ اور خطبہ میں کوئی فصل نہیں ہونا چاہیے، نیز خطبہ نماز جمعہ کا ایک حصہ ہے، یعنی جمعہ کی اذان دوسری نمازوں کے خلاف طریقے پر مشروع ہوتی ہے۔ دوسری نمازوں کے لیے اذان اور نماز کے درمیان کچھ وقفہ ہوتا ہے لیکن جمعہ کی اذان خطبے سے متصل ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 916