مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2409
2409. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ حاکم وقت نگران ہے اور وہ اپنے رعایا کے بارے میں مسئول ہوگا۔ آدمی اپنے گھر میں نگران ہے، اس سے اس کے اہل خانہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر میں حکومت رکھتی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اور خادم اپنے آقا کے مال میں حکومت رکھتا ہے، وہ بھی اس کے متعلق مسئول ہو گا۔“ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا ذکر تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ نے یوں بھی فرمایا: ”بیٹا اپنے باپ کے مال میں اختیار رکھتا ہے۔ اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال ہوگا۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق ضرور پوچھا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2409]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث ایک بہت بڑے تمدنی اصل الاصول پر مشتمل ہے۔
دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں۔
ان ذمہ داریوں کو محسوس کرکے صحیح طور پر ادا کرنا عین شرعی مطالبہ ہے۔
ایک حاکم بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے، گھر میں مرد جملہ اہل خانہ پر حاکم ہے۔
عورت گھر کی مالکہ ہونے کی حیثیت سے گھر اور اولاد کی ذمہ دار ہے۔
ایک غلام اپنے آقا کے مال میں ذمہ دار ہے۔
ایک مرد اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے الغرض اسی سلسلہ میں تقریباً دنیا کا ہر انسان بندھا ہوا ہے۔
پس ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کوادا کرے۔
حاکم کا فرض ہے اپنی حکومت کے ہر کہ رومہ پر نظر شفقت رکھے۔
ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے جملہ اہل خانہ پر توجہ رکھے۔
ایک عورت کا فرض ہے کہ اپنے شوہر کے گھر کی ہر طرح سے پوری پوری حفاظت کرے۔
اس کی دولت اور اولاد اور عزت میں کوئی خیانت نہ کرے۔
ایک غلام، نوکر، مزدور کا فرض ہے کہ اپنے فرائض متعلقہ کی ادائیگی میں اللہ کا خوف کرکے کوتاہی نہ کرے۔
یہی باب کا مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5188
5188. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔“ حاکم وقت نگہبان ہے، اسے بھی پوچھا جائے گا۔ مرد، اپنے اہل خانہ کا نگران ہے، اس سے سوال و جواب ہوگا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے بھی پوچھا جائے گا۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے، اسے پوچھا جائے گا۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم سے ہر ایک سے سوال ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5188]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ جب ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی تو آدمی کو اپنے گھر والوں کا خیال رکھنا ان کو برے کاموں سے روکنا ضروری ہے ورنہ وہ بھی قیامت کے دن دوزخ میں ان کے ساتھ ہوں گے اور کہا جائے گا کہ تم نے اپنے گھر والوں کو برے کاموں سے کیوں نہ روکا آیت ﴿قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحریم: 6)
کایہی مفہوم ہے۔
بہتر انسان وہی ہے جو خود نیک ہو اور اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی بھلا ہو۔
محبت اور نرمی سے گھر کا اور بال بچوں کا نظام بہتر رہتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے بہت خوش اخلاقی کا برتاؤکرتے تھے بعض دفعہ اپنی بیویوں سے مزاح بھی کرلیا کرتے تھے بعض دفعہ اپنی بیویوں سے مقابلے کی دوڑ لگا لیا کرتے تھے اور اپنی بیویوں کی زبان درازی کو در گزرفرما دیا کرتے تھے۔
ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے سبق حاصل کرنا چاہئے تا کہ ہم بھی اپنے گھر کے بہترین حاکم بن سکیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5188
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5200
5200. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی رعایا کے متعلق باز پرس ہو گی۔ حاکم وقت بھی نگہبان اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5200]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ جب ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی تو بیوی سے شوہر کے گھرکے متعلق ہوگی کہ اس نے اپنے شوہر کے گھر کی نگرانی کی یا نہیں۔
اسی طرح ہر ایک ذمہ دار سے سوال کیا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5200
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7138
7138. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔حاکم وقت لوگوں کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس سے اپنی نگہبانی کے متعلق سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ اولاد کی نگران ہے،اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ جسئ شخص کا غلام اپنے آقا سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، اسے اس کی نگرانی کے متعلق سوال ہوگا۔آگاہ رہو! تم سب نگہبان ہو تم سب سے اپنی اپنی رعایا کے متعلق بازپرس ہوگی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7138]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ ذمہ داری کا دائرہ حکومت و خلافت سے ہٹ کر ہر ادنیٰ سے ادنیٰ ذمہ دار پر بھی شامل ہے۔
ہر ذمہ دار اپنے حلقہ کا ذمہ دار اور مسؤل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7138
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2554
2554. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سب نگہبان ہو اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ جو لوگوں کا امیر ہے وہ ان کانگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا مرد اپنے اہل خانہ کانگہبان ہے، اس سے ان کے بارے میں سوا ل کیاجائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اسکے بچوں کی نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائےگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کانگہبان ہے، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ سن لو!تم سب نگہبان ہو اور سب سے اس کی نگہبانی کے متعلق باز پر س ہوگی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2554]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں بھی غلام کے لیے لفظ عبد اور آقا کے لیے لفظ سید کا استعمال ہوا ہے۔
اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال کرنا درست ہے۔
حضرت امام ؒ کا یہی مقصد ہے جس کے تحت یہاں آپ یہ جملہ روایات لائے ہیں۔
ان الفاظ کا استعمال منع بھی ہے جب حقیقی معانی مراد لیے جائیں۔
اور یہ اس میں تطبیق ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2554
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2751
2751. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو(یہ) فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر نگہبان سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اس اسے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل کیاجائے گا۔ آدمی اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل ہوگا۔ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔“ راوی کہتا ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا: ”مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2751]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب العتق میں گزر چکی ہے‘ اس کی مباسبت ترجمہ سے مشکل ہے۔
بعضوں نے کہا ہے غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہوا حالانکہ وہ غلام ہی کا کمایا ہوا ہے تو اس میں مالک اور غلام دونوں کے حق متعلق ہوئے‘ لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔
اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا‘ کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک قسم کا تبرع یعنی نفل ہے۔
شافعیہ نے کہا کہ ان میں وارث داخل نہ ہوں گے۔
بعضوں نے کہا داخل ہوں گے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا عزیزوں سے محرم ناطہ دار مراد ہوں گے ‘ باپ کی طرف کے ہوں یا ماں کی طرف کے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2751
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2409
2409. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ حاکم وقت نگران ہے اور وہ اپنے رعایا کے بارے میں مسئول ہوگا۔ آدمی اپنے گھر میں نگران ہے، اس سے اس کے اہل خانہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر میں حکومت رکھتی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اور خادم اپنے آقا کے مال میں حکومت رکھتا ہے، وہ بھی اس کے متعلق مسئول ہو گا۔“ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا ذکر تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ نے یوں بھی فرمایا: ”بیٹا اپنے باپ کے مال میں اختیار رکھتا ہے۔ اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال ہوگا۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق ضرور پوچھا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2409]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس روایت میں غلام کے الفاظ نہیں ہیں، البتہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں، (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5188)
امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے استنباط کیا ہے کہ خادم سے اپنے مالک کے مال کے متعلق باز پرس ہو گی، آیا اس کے حکم کے مطابق عمل کیا یا اس سے تجاوز کیا۔
(فتح الباري: 87/5) (2)
اس حدیث میں ایک اہم معاشرتی اصول بیان ہوا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں، ان ذمہ داریوں کا احساس کر کے انہیں صحیح طور پر ادا کرنا اس کا عین فرض ہے، لہذا جن افراد کے نام حدیث میں مذکور ہیں صرف وہی مراد نہیں لیے جائیں گے بلکہ اس کے دائرے کو آپ جتنا وسیع کرنا چاہیں کر سکتے ہیں، چنانچہ ایک دفتر کا انچارج اپنی اور ماتحت عملے کی ڈیوٹی کے بارے میں، کارخانے، فیکٹری کا مالک اپنے کارکنوں کے بارے میں مسئول ہو گا۔
بہرحال ایک نوکر، غلام اور مزدور کا فرض ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض پوری طرح ادا کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2558
2558. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرمارہے تھے: ”تم سب نگران ہو اور ہر ایک سے اس کی نگرانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کی نگرانی کے متعلق سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر کانگہبان ہے، اس سے اہل خانہ کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی نگرانی کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کانگران ہے، اس سے اس کی نگرانی کے متعلق پوچھاجائے گا۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے مذکورہ باتیں نبی کریم ﷺ سے سنی ہیں۔ میر اخیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی نگرانی کے متعلق سوال کیا جائےگا۔ بہرحال تم سب نگران ہو اور سب سے ان کی نگرانی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2558]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں خادم اور غلام کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے آقا کے مال کا نگران اور اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خود ہی اس میں نقب لگا کر چوری کرتا رہے۔
یہ تو ایسا ہے کہ کھیت کی باڑ ہی کھیت کو کھانا شروع کر دے۔
(2)
اسی طرح دکان یا کارخانے یا فیکٹری کے ملازمین کو چاہیے کہ وہ اس کے سامان اور دیگر اشیاء کی حفاظت اور نگرانی کریں، اسے اجازت کے بغیر استعمال نہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2558
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2751
2751. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو(یہ) فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر نگہبان سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اس اسے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل کیاجائے گا۔ آدمی اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل ہوگا۔ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔“ راوی کہتا ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا: ”مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2751]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، حالانکہ وہ مال غلام ہی کا کمایا ہوا ہے۔
گویا اس مال میں آقا اور غلام دونوں کے حقوق ہیں لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔
اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک طرح کا نفلی صدقہ ہے، اسے قرض کے بعد ادا کرنا ہو گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2751
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5188
5188. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔“ حاکم وقت نگہبان ہے، اسے بھی پوچھا جائے گا۔ مرد، اپنے اہل خانہ کا نگران ہے، اس سے سوال و جواب ہوگا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے بھی پوچھا جائے گا۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے، اسے پوچھا جائے گا۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم سے ہر ایک سے سوال ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5188]
حدیث حاشیہ:
(1)
انسان کی بیوی بچوں پر لفظ اہل کا اطلاق ہوتا ہے۔
بیوی کےلیے اہلیہ کا اطلاق اسی سے ماخوذ ہے۔
ارشاد بار تعالیٰ کا مطلب ہے کہ تم اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی فکر کرو۔
انھیں گناہ کرنے سے باز رکھو، نیک کام کرنے پر آمادہ کرو۔
انھیں آداب و اخلاق سکھاؤ، شر اور سرکشی سے منع کرو۔
قرآن کریم میں اپنے اہل و عیال کے متعلق درج ذیل دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے:
”وہ (رحمٰن کے بندے)
دعا کرتے ہیں:
اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔
“ (الفرقان: 74) (2)
بیوی اور اولاد سے انسان کو فطری طور پر محبت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ دونوں اس کے لیے آزمائش کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لہٰذا ہر مسلمان کو ان کے حق میں دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر جہنم کا ایندھن اور اس کے لیے پریشانیوں کا باعث نہ بنیں۔
بہتر انسان وہ ہے جو خود بھی نیک ہو اور اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی خیر خواہی کے جذبات رکھے، محبت اور نرمی سے گھر کا نظام بہتر بنائے، اپنے اہل خانہ سے خوش اخلاقی کا برتاؤ کرے اور انھیں جہنم سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5188
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5200
5200. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی رعایا کے متعلق باز پرس ہو گی۔ حاکم وقت بھی نگہبان اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے۔ الغرض تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5200]
حدیث حاشیہ:
(1)
اللہ تعالیٰ نے نیک بیویوں کے اوصاف ان الفاظ میں بیان کیے ہیں:
”نیک عورتیں وہ ہیں جو شوہروں کی فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہوں۔
“ (النساء: 34)
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خاوند کی عدم موجودگی میں گھر، اولاد اور اس کے مال و متاع کی ذمے دار ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی غیر مرد کو گھر میں داخل نہ ہونے دے اور نہ خود کسی غیر مرد سے آزادانہ میل میلاپ یا خوش طبعی کی باتیں ہی کرے، نیز وہ شوہر کے مال کی امین ہو، اسے فضول کاموں میں خرچ نہ کرے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور نہ چوری چھپے خاوند کا مال اپنے میکے والوں کو دینا ہی شروع کر دے۔
اسی طرح وہ اس کی اولاد کی نگہداشت و تربیت کرے۔
(2)
مذکورہ حدیث کے مطابق جب ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی تو بیوی سے شوہر کے گھر کے متعلق بھی سوال ہوگا کہ اس نے اپنے شوہرکے گھر کی نگرانی کی ہے یا نہیں۔
والله المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5200
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7138
7138. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔حاکم وقت لوگوں کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس سے اپنی نگہبانی کے متعلق سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ اولاد کی نگران ہے،اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ جسئ شخص کا غلام اپنے آقا سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، اسے اس کی نگرانی کے متعلق سوال ہوگا۔آگاہ رہو! تم سب نگہبان ہو تم سب سے اپنی اپنی رعایا کے متعلق بازپرس ہوگی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7138]
حدیث حاشیہ:
1۔
رعایت کے معنی چیز کی حفاظت کرنا اور اس کی پوری نگرانی کرنا ہیں۔
یہ نگرانی اپنے اپنے متعلقین کے اعتبار سے مختلف ہے۔
جس کی کوئی،رعایا،گھر بار اور اولاد وغیرہ نہ ہو وہ اپنے آپ کا اوراپنے اعضاء کا نگران ہے۔
اسے چاہیے کہ اپنے اعضاء کا صحیح استعمال کرے اور اپنے دوستوں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کے حقوق کا خیال رکھے۔
اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔
2۔
مقصد یہ ہے کہ ذمہ داری کا دائرہ حکومت وامارت سے ہٹ کر ہرادنیٰ سے ادنیٰ ذمہ دار کو بھی شامل ہے۔
ہرذمہ داراپنے حلقے کا مسئول ہے۔
اس ذمہ داری سے ناجائز فائدہ اٹھانا بھی گناہ ہے جیسا کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ ولید بن عبدالملک کے پاس گئے تواس نے درج ذیل حدیث کے متعلق آپ سے سوال کیا:
\"جب اللہ تعالیٰ کسی کو خلافت کی ذمہ داری دیتا ہے تو اس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں لیکن اس کی بُرائیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
\"امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ یہ محض جھوٹ ہے،پھر انھوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت تلاوت کی:
\"اے داؤد علیہ السلام!ہم نے تمھیں زمین میں نائب بنایا ہے،لہذا تم لوگوں میں انصاف سے فیصلے کرنا اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ یہ بات تمھیں اللہ کی راہ سے بہکادےگی اور جو لوگ اللہ کی راہ سے بہک جاتے ہیں،ان کے لیے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ یوم حساب کو بھول گئے ہیں\"۔
(ص26/38)
یہ سن کر ولید نے کہا:
لوگ ہمیں دین کے متعلق اندھیرے میں رکھتے ہیں۔
(فتح الباری 13/141) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7138