اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس بات کو مستحب جانتے تھے کہ مقتدی بھی اسی وقت سلام پھیریں جب امام سلام پھیرے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: Q838]
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں معمر بن راشد نے زہری سے خبر دی، انہیں محمود بن ربیع انصاری نے انہیں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 838]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 838
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کا مقصد باب سے یہ ہے کہ مقتدیوں کو سلام پھیرنے میں دیر نہ کرنی چاہیے بلکہ امام کے ساتھ ہی وہ بھی سلام پھیر دیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 838
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:838
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان حدیث بالا سے ماخوذ ہے۔ اس میں کئی ایک احتمال ہیں: یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ امام کی ابتدا کے بعد مقتدی اپنے سلام کا آغاز کرے، یعنی مقتدی اپنے امام کے اختتامِ سلام سے پہلے پہلے سلام کا آغاز کر دے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب امام اپنے سلام کو پورا کرے تو اس کے بعد مقتدی اس کا آغاز کرے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق ایک مجتہد کو غور فکر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ (فتح الباري: 417/2) ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مقتدیوں کو سلام پھیرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ امام کی متابعت کرتے ہوئے ساتھ ہی سلام پھیر دینا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 838