ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمیں (نماز پڑھ کر) دکھلاتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے تھے اور یہ نماز کا وقت نہیں تھا۔ چنانچہ آپ (ایک مرتبہ) کھڑے ہوئے اور پوری طرح کھڑے رہے۔ پھر جب رکوع کیا اور پوری طمانیت کے ساتھ سر اٹھایا تب بھی تھوڑی دیر سیدھے کھڑے رہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ مالک رضی اللہ عنہ نے ہمارے اس شیخ ابویزید کی طرح نماز پڑھائی۔ ابویزید جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو پہلے اچھی طرح بیٹھ لیتے پھر کھڑے ہوتے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 802]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:802
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے ہر رکن کو پورے سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے کہ جسم کا ہر عضو اپنی اپنی جگہ پر سکون و اطمینان سے ٹھہر جائے۔ شریعت کی نظر میں طویل قیام کی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ قیام میں حالات و ظروف کے پیش نظر کمی و بیشی ہو سکتی ہے لیکن مواضع اربعہ، یعنی رکوع، قومہ، سجدہ اور درمیانی نشست کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا معمول ہمیشہ یکساں رہا ہے۔ (2) واضح رہے کہ حدیث میں مذکور شیخ سے مراد حضرت عمرو بن سلمہ جرمی ہیں۔ (فتح الباري: 375/2) اس حدیث میں جلسۂ استراحت کا بھی بیان ہے جس کی وضاحت ہم حدیث: 823 میں کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 802
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 240
´نماز کی صفت کا بیان` «. . . وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه: أنه رأى النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصلي فإذا كان في وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي قاعدا . رواه البخاري. . . .» ”. . . سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا فرماتے دیکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی وتر (رکعت) پڑھتے تو (پہلے تھوڑا) بیٹھتے پھر سیدھا کھڑے ہو جاتے۔ (بخاری) . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 240]
لغوی تشریح: «فِي وِتْرٍ مِنْ صَلَاتِهِ» جب آپ طاق رکعت، یعنی پہلی یا تیسری رکعت مکمل فرما لیتے اور دوسری یا چوتھی کے لیے کھڑا ہونا چاہتے۔ «لَمْ يَنْهَضْ» نہ کھڑے ہوتے۔ «حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا» حتی کہ پہلے سیدھے ہو کر مکمل طور پر بیٹھ جاتے۔ اسے جلسہ استراحت کہتے ہیں اور یہ مسنون و مشروع ہے۔
فائدہ: اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں مگر امام احمد اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اس کے قائل نہیں۔ وہ اسے بڑھاپے پر محمول کرتے ہیں۔ لیکن یہ تاویل درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء سے فرمایا تھا: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُنِي أُصَلِّي»”تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“[صحيح البخاري، الصلاة، حديث: 631] اور وہی بیان کرتے ہیں کہ آپ جلسہ استراحت کرتے تھے۔ خود راوی حدیث نے جب اسے پڑھاپے پر محمول نہیں کیا تو پھر یہ محمول تحکم محض ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 240
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 844
´پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان۔` مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوتے جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 844]
844۔ اردو حاشیہ: ➊ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ پہلی اور تیسری رکعت میں جلسہ استراحت مسنون اور مستحب ہے۔ ➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تعیم نماز کے بالخصوص بہت ہی حریص تھے۔ انہوں نے اس کی جزیات تک محفوظ رکھا اور امت تک پہنچایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 844
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1153
´دونوں سجدوں سے اٹھتے وقت بیٹھنے کے لیے سیدھا ہونے کا بیان۔` مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، جب آپ اپنی نماز کی طاق رکعتوں میں ہوتے تو جب تک بیٹھ کر سیدھے نہیں ہو جاتے نہیں اٹھتے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1153]
1153۔ اردو حاشیہ: طاق رکعت کے بعد اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہونے سے قبل سیدھا بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے اور یہ ضروری ہے۔ اس حدیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث میں اس کا صراحتاً ذکر ہے۔ قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ بعض حضرات جو اس کے قائل نہیں وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھاپے پر محمول کرتے ہیں کہ بڑھاپے کی وجہ سے آپ کو بیٹھنا پڑتا تھا، نماز کی سنت کے طور پر نہیں۔ مگر ان کے پاس اس تاویل کی کوئی دلیل نہیں جب کہ آنکھوں سے دیکھنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم تو اسے بڑھاپے کی بنا پر نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ کا دس صحابہ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بیان میں اس امر کا ذکر کرنا اور ان صحابہ کا خاموش رہنا واضح دلیل ہے۔ مسیی الصلاۃ والی قولی روایت بھی صریح ہے۔ اگر کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے تو وہ اختصار کے پیش نظر ہے۔ کسی چیز کا حکم مجموعی طور پر احادیث سے اخذ کرنا چاہیے، لہٰذا کسی حدیث میں اس کا عدم ذکر اس کے وجوب کے خلاف نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا خیال بعد والوں کے خیال سے یقیناًً زیادہ معتبر ہے۔ ویسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے مں بھی اتنے کمزور نہیں ہوئے تھے کہ ایک مسلمہ مسئلے کو چھوڑنا یا تبدیل کرنا پڑ گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1153
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1154
´اٹھتے وقت زمین پر ہاتھ ٹیکنے کا بیان۔` ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آتے تو کہتے: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو وہ بغیر وقت کے نماز پڑھتے، جب وہ پہلی رکعت میں دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھ کر سیدھے ہو جاتے، پھر کھڑے ہوتے تو زمین پر اپنا ہاتھ ٹیکتے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1154]
1154۔ اردو حاشیہ: ➊ حدیث نمبر 1092 میں ذکر ہو چکا ہے کہ ہاتھ انسان کو سہارے کا کام دیتے ہیں اور ہاتھوں کے سہارے کے بغیر اٹھنا یا بیٹھنا اونٹ بلکہ عام جانوروں کی مشابہت سے جو مناسب نہیں۔ سنن ابوداود کی ایک روایت میں سہارے سے منع کیا گیا ہے۔ اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے منکر قرار دیا ہے۔ دیکھیے، [ضعیف سنن ابن داود، رقم: 992] ➋ بالتبع یہ بھی معلوم ہوا کہ اٹھتے وقت گھٹنے پہلے اٹھائے جائیں گے اور ہاتھ بعد میں کیونکہ سہارا بعد میں ہٹایا جاتا ہے اور اسی میں سہولت ہے۔ بوڑھے بھی آسانی سے اٹھ سکیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1154
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 287
´سجدے سے کیسے اٹھا جائے؟` ابواسحاق مالک بن حویرث لیثی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، آپ کی نماز اس طرح سے تھی کہ جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک کہ آپ اچھی طرح بیٹھ نہ جاتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 287]
اردو حاشہ: 1؎: اس بیٹھک کا نام جلسئہ استراحت ہے، یہ حدیث جلسئہ استراحت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، جو لوگ جلسئہ استراحت کی سنت کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کی مختلف تاویلیں کی ہیں، لیکن یہ ایسی تاویلات ہیں جو قطعاً لائقِ التفات نہیں، نیز قدموں کے سہارے بغیر بیٹھے اٹھنے کی حدیث ضعیف ہے جو آگے آ رہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 287
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 823
823. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:823]
حدیث حاشیہ: طاق رکعتوں کے بعد یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے جب اٹھے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر اٹھنا، اس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:823
823. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:823]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے جلسۂ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس کی صورت ایک طریق میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے: رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کہتے ہوئے (دوسرے سجدے سے) اٹھتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے ہوئے اس پر بیٹھتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 730)(2) جلسۂ استراحت سے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھنا چاہیے جیسا کہ اگلی حدیث میں وضاحت ہے۔ (3) بعض حضرات جلسۂ استراحت کو واجب کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مسیئ الصلاة کو اس کا حکم دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6251) مذکورہ حدیث کے راوی حضرت مالک بن حویرث ؓ کو اعمال صلاۃ بتانے کے بعد آپ ﷺ نے آخر میں فرمایا تھا: ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ “(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631)(4) امام ترمذی ؒ نے دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھنے کا طریقہ بتانے کے لیے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی مذکورہ حدیث صحیح بخاری ذکر کی، پھر فرمایا کہ اسی پر بعض اہل علم، امام اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب کا عمل ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 287) پھر امام ترمذی ؒ نے ایک دوسرا باب قائم کیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ ؓ بیان کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد جلسۂ استراحت کیے بغیر اپنے پاؤں کے پنجوں پر کھڑے ہوتے تھے اور اس پر لکھا ہے کہ اس پر بھی بعض اہل علم کا عمل ہے لیکن اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس میں ایک راوی خالد بن ایاس ہے جو محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 288) علامہ البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (إرواءالغلیل، حدیث: 362)(5) بعض حضرات جلسۂ استراحت کی بابت اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی عادت ہمیشہ جلسۂ استراحت کرنے کی ہوتی تو ہر شخص اسے بیان کرتا جو طریقۂ نماز بیان کرتا ہے۔ اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ متفق علیہ سنتوں کو ہر ایک نے مکمل طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کے مجموعے کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے لیا گیا ہے، اس لیے اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 391/2) عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نماز میں سجدۂ تلاوت سے اٹھ کر امام اور مقتدی جلسۂ استراحت کے لیے نہیں بیٹھتے بلکہ سجدے سے سیدھے قیام کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس مسئلے کے متعلق وارد احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ سجدۂ تلاوت کرنے کے بعد بھی جلسۂ استراحت کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ (6) مخالفینِ جلسۂ استراحت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ آثار بھی پیش کرتے ہیں لیکن مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم۔ (7) اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کمزوری یا بیماری کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیا تھا۔ اسی طرح یہ قیاس بھی درست نہیں کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں۔ یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 823