اور ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (رکوع سے) سر اٹھایا تو سیدھے اس طرح کھڑے ہو گئے کہ پیٹھ کا ہر جوڑ اپنی جگہ پر آ گیا۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: Q800]
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ثابت بنانی سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بتلاتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ ہم سوچنے لگتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 800]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 800
حدیث حاشیہ: قسطلانی ؒ نے کہا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتدال یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا ایک لمبا رکن ہے۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ان کا قول فاسد اور ناقابل توجہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 800
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:800
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت میں اختصار ہے۔ امام بخاری ؒ نے باب المكث بین السجدتین میں اسے تفصیل سے بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت ثابت کہتے ہیں کہ حضرت انس ؓ نماز پڑھتے وقت ایسے کام کرتے تھے کہ میں نے تم لوگوں کو وہ کام کرتے نہیں دیکھا۔ وہ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا: شاید آپ بھول گئے ہوں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 821)(2) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ثابت کے زمانے میں لوگ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان بھی نشست کو لمبا نہیں کرتے تھے جبکہ حضرت انس ؓ انہیں اس قدر لمبا کرتے تھے کہ دیکھنے والے خیال کرتے شاید آپ بھول گئے ہیں۔ (3) شارحین نے بھول جانے کے کئی ایک مفہوم بیان کیے ہیں، مثلاً: ٭ سجدہ کرنا بھول گئے ہیں۔ ٭ آپ بھول گئے کہ شاید نماز میں نہیں کھڑے۔ ٭ آپ بھول کر یہ سمجھتے ہوں کہ شاید قنوت کا وقت ہے۔ (فتح الباري: 373/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 800